ETV Bharat / state

بریلی: ائمہ اور مؤذنین کو مشکلات کا سامنا - بریلی میں مسجد ذمہ داران

ان لاک - 5 کے تحت رفتہ رفتہ تمام کاروباری، سماجی اور سیاسی سرگرمیاں اپنے معمول پر آرہی ہیں لیکن مذہبی مقامات پر اب بھی لاک ڈاؤن جیسے حالات ہیں۔ تاہم ائمہ اور مؤذن کو اب بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

بریلی کی مسجدوں میں اب بھی لاک ڈاؤن جیسے حالات
بریلی کی مسجدوں میں اب بھی لاک ڈاؤن جیسے حالات
author img

By

Published : Oct 29, 2020, 8:55 AM IST

ریاست اترپردیش کے ضلع بریلی میں مسجد کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے ان لاک-5 کے تحت شہریوں کو تمام سہولیات فراہم کرائی ہیں۔

واضح رہے کہ رفتہ رفتہ تمام کاروباری، سماجی اور سیاسی سرگرمیاں اپنے معمول پر آرہی ہیں لیکن مذہبی مقامات پر اب بھی لاک ڈاؤن جیسے حالات ہیں اور مساجد کے ائمہ اور مؤذن کو آج بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

مساجد کے ائمہ اور مؤذن کے لیے اب بھی حالات لاک ڈاؤن کی مانند ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مساجد میں اب بھی پانچ نمازیوں کی تعداد معین ہے جس کی وجہ سے چندہ وغیرہ نہیں مل رہا ہے لہٰذا ائمہ اور مؤذن کی تنخواہ کا انتظام کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

بریلی کی تمام مساجد میں ائمہ اور مؤذن کی تنخواہ کا انتظام مساجد کی کمیٹی اپنے جیب سے یا محلّے کے لوگ کرتے ہیں۔

مساجد کے کمیٹی کے اراکین کے علاوہ علاقے کے نمازی اور کچھ لوگوں کو نامزد کر کے رقم طے کی گئی ہے اور لوگ حسب حیثیت اپنی جیب سے ماہانہ رقم ادا کرتے ہیں، جس سے ائمہ اور مؤذن کی نتخواہ کا انتظام کیا جاتا ہے۔

بریلی کی مسجدوں میں اب بھی لاک ڈاؤن جیسے حالات

مسجد چاند میاں درگاہ ناصر میاں کے منتظم کمال میاں نیازی کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے انفیکشن سے بچاؤ کے لیے مرکزی حکومت نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا، جس کی وجہ سے تمام کاروبار، تعلیمی ادارے، سماجی اور سیاسی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اب حالت یہ ہے کہ حالات اب تک سازگار نہیں ہیں۔ حکومت کو ایسے حالات میں ہر طبقہ کو نظر میں رکھ کر پالیسی تیار کرنی چاہیے، جس سے حکومت کی سہولیات سے کوئی محروم نہ رہے۔

انہوں نے کہا کہ امام کا اعلیٰ مرتبہ ہے، لہٰذا کم از کم امام کو تنخواہ کے لیے دوسروں پر منحصر نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹیز کے وسائل محدود ہیں لہٰذا حکومت کو اس جانب بھی خاص توجہ دینی چاہیے۔

اس کے برعکس شہر کی تمام مساجد ایسی ہیں جہاں امام کی تنخواہ کا انتظام بغیر کسی چندے اور امداد حاصل کیے ہی کیا جا رہا ہے۔

بریلی حج سیوا سوسائٹی کے سرپرست پمّی خاں وارثی کہتے ہیں کہ کمیٹی نے مرکزی حکومت اور اس وقت کی اکھلیش یادو حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ مساجد کے ائمہ اور مؤذن کی تنخواہ حکومت کی جانب سے طے کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ امام کی تنخواہ کا انتظام کرنا مشکل نہیں ہے، جہاں مسجد کے نام کوئی سرمایہ یا جائیداد نہیں ہے۔

شہر کی صد سالہ قدیمی مسجد نومحلہ، کی دیکھ بھال کی ذمہ داری 'انجمن اسلامیہ کمیٹی' کے سپرد ہے۔ لہٰذا اس مسجد کے امام اور مؤذن کی تنخواہ انجمن اسلامیہ کمیٹی کی جانب سے ادا کی جاتی ہے۔

شہر کی مسجد بی بی جی کے امام و مؤذن کی تنخواہ کا انتظام بھی درگاہ اعلیٰ حضرت کے سجادہ نشین کے زیر اہتمام کمیٹی کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

شہر کی جامع مسجد کے امام اور مؤذن کی تنخواہ کا انتظام مسجد کے نام اندراج دکانوں اور مکانوں کے کرائے سے کیا جاتا ہے۔

ریاست اترپردیش کے ضلع بریلی میں مسجد کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے ان لاک-5 کے تحت شہریوں کو تمام سہولیات فراہم کرائی ہیں۔

واضح رہے کہ رفتہ رفتہ تمام کاروباری، سماجی اور سیاسی سرگرمیاں اپنے معمول پر آرہی ہیں لیکن مذہبی مقامات پر اب بھی لاک ڈاؤن جیسے حالات ہیں اور مساجد کے ائمہ اور مؤذن کو آج بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

مساجد کے ائمہ اور مؤذن کے لیے اب بھی حالات لاک ڈاؤن کی مانند ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مساجد میں اب بھی پانچ نمازیوں کی تعداد معین ہے جس کی وجہ سے چندہ وغیرہ نہیں مل رہا ہے لہٰذا ائمہ اور مؤذن کی تنخواہ کا انتظام کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

بریلی کی تمام مساجد میں ائمہ اور مؤذن کی تنخواہ کا انتظام مساجد کی کمیٹی اپنے جیب سے یا محلّے کے لوگ کرتے ہیں۔

مساجد کے کمیٹی کے اراکین کے علاوہ علاقے کے نمازی اور کچھ لوگوں کو نامزد کر کے رقم طے کی گئی ہے اور لوگ حسب حیثیت اپنی جیب سے ماہانہ رقم ادا کرتے ہیں، جس سے ائمہ اور مؤذن کی نتخواہ کا انتظام کیا جاتا ہے۔

بریلی کی مسجدوں میں اب بھی لاک ڈاؤن جیسے حالات

مسجد چاند میاں درگاہ ناصر میاں کے منتظم کمال میاں نیازی کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے انفیکشن سے بچاؤ کے لیے مرکزی حکومت نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا، جس کی وجہ سے تمام کاروبار، تعلیمی ادارے، سماجی اور سیاسی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اب حالت یہ ہے کہ حالات اب تک سازگار نہیں ہیں۔ حکومت کو ایسے حالات میں ہر طبقہ کو نظر میں رکھ کر پالیسی تیار کرنی چاہیے، جس سے حکومت کی سہولیات سے کوئی محروم نہ رہے۔

انہوں نے کہا کہ امام کا اعلیٰ مرتبہ ہے، لہٰذا کم از کم امام کو تنخواہ کے لیے دوسروں پر منحصر نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹیز کے وسائل محدود ہیں لہٰذا حکومت کو اس جانب بھی خاص توجہ دینی چاہیے۔

اس کے برعکس شہر کی تمام مساجد ایسی ہیں جہاں امام کی تنخواہ کا انتظام بغیر کسی چندے اور امداد حاصل کیے ہی کیا جا رہا ہے۔

بریلی حج سیوا سوسائٹی کے سرپرست پمّی خاں وارثی کہتے ہیں کہ کمیٹی نے مرکزی حکومت اور اس وقت کی اکھلیش یادو حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ مساجد کے ائمہ اور مؤذن کی تنخواہ حکومت کی جانب سے طے کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ امام کی تنخواہ کا انتظام کرنا مشکل نہیں ہے، جہاں مسجد کے نام کوئی سرمایہ یا جائیداد نہیں ہے۔

شہر کی صد سالہ قدیمی مسجد نومحلہ، کی دیکھ بھال کی ذمہ داری 'انجمن اسلامیہ کمیٹی' کے سپرد ہے۔ لہٰذا اس مسجد کے امام اور مؤذن کی تنخواہ انجمن اسلامیہ کمیٹی کی جانب سے ادا کی جاتی ہے۔

شہر کی مسجد بی بی جی کے امام و مؤذن کی تنخواہ کا انتظام بھی درگاہ اعلیٰ حضرت کے سجادہ نشین کے زیر اہتمام کمیٹی کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

شہر کی جامع مسجد کے امام اور مؤذن کی تنخواہ کا انتظام مسجد کے نام اندراج دکانوں اور مکانوں کے کرائے سے کیا جاتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.