ETV Bharat / state

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

بہادر خاتون جس کی جواں مردی اور دلیری پر بھارت فخر کرسکتا ہے اور پوری قوم جس کی ممنونِ احسان ہے مہارانی لکشمی بائی ہیں، جنہیں بھارت کے عوام جھانسی کی رانی کے لقب سے جانتے ہیں اور جو دورِ غلامی کی سو سالہ تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
author img

By

Published : Mar 23, 2021, 1:22 PM IST

جھانسی کی رانی کا عہد وہ زمانہ ہے جب انگریز سامراج نے پورے ملک میں اپنی سازشوں کا جال بچھا کر تمام راجوں اور نوابوں کو اپنا دست نگر بنالیا تھا، راجے مہاراجے اور نواب و جاگیردار سالانہ وظائف پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، بنارس کے ایک والی ریاست چمرن اپا بھی اسی طرح کے حکمراں تھے ان کے ایک مصاحب موری پت تانبے تھے جن کے یہاں 19 نومبر 1835ء میں ایک لڑکی پیدا ہوئی، اس لڑکی کا نام منو بائی رکھا گیا۔

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

بچپن میں برہمن نے اس کا زائچہ کھینچا تو والدین کو یہ خوشخبری سنائی کہ ایک دن ان کی لاڈلی پورے ملک میں آفتاب کی طرح چمکے گی اور اس کی شہرت دور دور تک پھیل جائے گی۔ لیکن ہوا یہ کہ بیٹی کی ولادت کے بعد ماں باپ کے ستارے گردش میں آگئے، باپ ایک دن اچانک دنیا سے رخصت ہوگئے اور آٹھ لاکھ روپے کی سالانہ پینشن بند ہوگئی، حسنِ اتفاق سے چمرن اپا کے ایک دوست نے جو باجی راؤ پیشوا کی ریاست بٹھور میں ایک ممتاز عہدہ پر فائز تھے، اس خاندان کو اپنے یہاں بلوالیا، منو کی ذہانت اور شرارت کو دیکھ کر باجی راؤ بھی اس کو بہت چاہنے لگے انہوں نے پیار سے اس لڑکی کو چھبیلی نام دیا، بعد میں وہ محل کے اندر پیشوا کے اکلوتے بیٹے نانا صاحب کے ساتھ تعلیم وتربیت حاصل کرنے لگی، ہر سال رکشا بندھن کا دن آتا تو منو اپنے بھائی کی طرح نانا صاحب کو راکھی بھی باندھتی۔

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

منونے جیسے ہی سنِ بلوغیت میں قدم رکھا، اس کی خوبصورتی، سمجھداری اور شہ سواری کے چرچے ہونے لگے ، اسی زمانے میں جھانسی کے راجہ گنگا دھر راؤ کی پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے پیشوا کی خدمت میں حاضر ہو کر منو بائی سے شادی کا پیغام دیا، جس کو منظور کرکے یہ شادی ہوگئی اور اس طرح منو بائی جھانسی کی رانی بن گئی، گنگا دھر راؤ نے منو بائی کا نام لکشمی بائی رکھا جو اتنا مشہور ہوا کہ سارے ملک میں عزت واحترام سے لیا جانے لگا، اس کے عزم وحوصلے، بہادری وجواں مردی کے اتنے چرچے ہوئے کہ یہ نام حریت وبہادری کی ایک روشن علامت بن گیا۔

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

گنگا دھر راؤ کے یہاں نہ تو پہلی بیوی سے اولاد ہوئی اور نہ ہی لکشمی بائی کے بطن سے اس کا والی پیدا ہوا تو اس نے ایک بچہ کو گود لے لیا، گورنر جنرل نے اس بچہ کو تخت کا وارث بنانے کا وعدہ بھی کرلیا۔

بعد ازاں 1853ء میں لارڈ لہوزی بھارت کا نیا گورنر جنرل بن کر وارد ہوا تو اس نے ایک ایسا قانون بنایا جس کی رو سے گود لئے بچہ کو تخت کا وارث نہیں بنایا جاسکتا بلکہ تمام لاولد حکمرانوں کی ریاستوں کو انگریزی حکومت میں شامل کرنے کا انتظام تھا، اسی قانون کے تحت راجہ کے انتقال پر انگریز حکومت نے جھانسی کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کا اعلان کردیا اور گود لئے ہوئے بچے دامودر راؤ نیز لکشمی بائی کے لئے سالانہ پینشن مقرر کردی، اس پینشن کی ادائیگی میں بھی انگریز حکمرانوں نے ناانصافی سے کام لیا۔

لہٰذا

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

دوسری طرف بٹھور کے نانا صاحب کے ساتھ انگریزوں نے اپنی روایتی بدمعاملگی کا مظاہرہ کیا، غیرت مند نانا صاحب جو پہلے سے ہی اپنی بہن لکشمی بائی کے ساتھ انگریزوں کی بد دیانتی پر چراغ پا تھے، بھڑک اٹھے۔ ان کے جانباز سپہ سالار تانتیا ٹوپے کا بھی یہی مشورہ تھا کہ ان ظالموں سے نپٹنے کیلئے اب جنگ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لہٰذا نانا صاحب کے مشورہ پر رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کا حکم ماننے سے انکار کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی، انگریز جو پہلے سے ہی ساری صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے جھانسی کی رانی کو پریشان کرنے لگے مگر قدرت نے اس نازک سی عورت کو فولاد کا دل اور چٹان جیسا حوصلہ بخشا تھا لہٰذا وہ مقابلہ کرتی رہی۔

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

اس درمیان ننھے خاں نام کے ایک پیشہ ور لٹیرے کو شہہ دے کر انگریزوں نے جھانسی پر حملہ کرادیا، رانی نہیں چاہتی تھی کہ آپس میں خون خرابہ ہو ، اس نے ننھے خاں سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ ننھے خاں نے تین لاکھ روپے کا مطالبہ کیا، رانی نے شر کو مٹانے کے جذبہ سے کسی طرح یہ مطالبہ پورا کردیا، کچھ دن بعد ہی انگریز حکمرانوں نے رانی پر بغاوت کا الزام لگاکر اس سے جواب طلب کیا، رانی شیرنی کی طرح گرج اٹھی اور کوئی باضابطہ جواب دینے سے صاف انکار کردیا، جس کے ردعمل میں سامراجی فوج رانی کو قید کرنے کیلئے جھانسی کی طرف بڑھنے لگی، رانی لکشمی بائی نے مردانہ فوجی لباس زیب تن کیا اور اپنی رعایا پرواضح کردیا کہ وقت آگیا ہے ہم انگریزوں کے بزدلانہ حملہ کا جواب دیں اور اگر اس راہ میں عزت کی موت ملے تو اس کو بھی گلے لگالیں، عوام نے رانی کی آواز پر لبیک کہہ کر ان سے عہد وفاداری کیا۔

دوسری طرف انگریزوں کا پیغام ملا کہ رانی خود کو ہمارے حوالے کردے، رانی کا برملا جواب تھا کہ ہندوستانی عورت خود کو صرف اپنے شوہر کے حوالے کرتی ہے کسی دوسرے کی یہ مجال نہیں کہ زندگی میں اسے ہاتھ لگالے، اس کے ساتھ ہی جھانسی کے قلعہ سے توپوں نے گرجنا شروع کردیا۔

دوسری طرف نانا صاحب اور تانتیا ٹوپے نے مورچہ سنبھال لیا اور ایک گھمسان کی جنگ چھڑگئی، شروع میں انگریز فوجیں اپنے حلیفوں کے ساتھ بھی کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں حاصل کرسکیں اسی عرصہ میں تانتیا ٹوپے کی شکست کا حال معلوم ہوا تو رانی کافی اداس ہوگئی، اس نے سوچا کہ وفادار مٹھی بھر جانباز سپاہی کب تک زبردست انگریز فوج کا مقابلہ کرسکیں گے انگریز بھی قلعہ کے کافی قریب پہونچ چکے تھے انہوں نے رانی کو زندہ جلانے کیلئے قلعہ کے چاروں طرف آگ لگادی، رانی اپنے گود لئے بیٹے کو گھوڑے پر سوار کرکے کسی طرح وہاں سے نکل گئی، برق رفتار گھوڑے نے ہوا سے باتیں کرتے ہوئے چوبیس گھنٹے میں ایک سو دو میل کا فاصلہ طے کرکے رانی کو صحیح و سلامت کالپی پہونچا دیا، جن فوجیوں نے پیچھا کیا ان میں سے بیشتر رانی کے ہاتھوں مارے گئے، کالپی میں نانا صاحب اپنی بہن کا استقبال کرنے کیلئے موجود تھے لیکن دوسرے ہی دن پیشوا کی فوج شکست سے دوچار ہوگئی تو دونوں بھائی بہن گوالیار کی طرف بڑھ گئے۔

گوالیار کا راج جیا جی راؤ سندھیا انگریزوں کا وفادار تھا عوام چاہتے تھے کہ راجہ بھی اس موقع پر جنگ کا اعلان کرے مگر وہ راضی نہ ہوا اور رعایا کے تیور دیکھ کر انگریزوں کی پناہ میں چلا گیا، دوسرے دن کرنل اسمتھ گوالیار پر حملہ آور ہوگیا وہاں دادِ شجاعت دینے کے لئے رانی خود جنگ میں کود پڑی، فتح قریب تھی کہ غدار دیوان راؤ دنکر انگریزوں سے جا ملا، پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے میدان جنگ کا نقشہ تبدیل ہوگیا، رانی صورت حال کی نزاکت کا احساس کرکے اپنے وفادار سپاہیوں کے ساتھ ایک سمت چل پڑی، دشمن کے سپاہی تعاقب میں تھے موقع پاکر ایک سپاہی نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ گال سمیت داہنی آنکھ باہر نکل آئی مگر شیردل رانی تلوار چلاتی رہی اس نے اپنے وفادار سپاہی چندر راؤ کو تاکید کی خبردار میرے جسم کو انگریز نہ ہاتھ لگاپائیں۔ پھر وہ گرپڑی، رام چندر راؤ نے وہیں چتا تیار کی، کچھ ہی دیر میں افق پر شفق کی سرخی پھیلنے لگی جو اس کی غماز تھی کہ ملک وقوم کیلئے جان نچھاوڑ کرنے والے مرتے نہیں، زمین پر گرا ہوا ان کے لہو کا ایک ایک قطرہ شفق کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔

جھانسی کی رانی کا عہد وہ زمانہ ہے جب انگریز سامراج نے پورے ملک میں اپنی سازشوں کا جال بچھا کر تمام راجوں اور نوابوں کو اپنا دست نگر بنالیا تھا، راجے مہاراجے اور نواب و جاگیردار سالانہ وظائف پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، بنارس کے ایک والی ریاست چمرن اپا بھی اسی طرح کے حکمراں تھے ان کے ایک مصاحب موری پت تانبے تھے جن کے یہاں 19 نومبر 1835ء میں ایک لڑکی پیدا ہوئی، اس لڑکی کا نام منو بائی رکھا گیا۔

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

بچپن میں برہمن نے اس کا زائچہ کھینچا تو والدین کو یہ خوشخبری سنائی کہ ایک دن ان کی لاڈلی پورے ملک میں آفتاب کی طرح چمکے گی اور اس کی شہرت دور دور تک پھیل جائے گی۔ لیکن ہوا یہ کہ بیٹی کی ولادت کے بعد ماں باپ کے ستارے گردش میں آگئے، باپ ایک دن اچانک دنیا سے رخصت ہوگئے اور آٹھ لاکھ روپے کی سالانہ پینشن بند ہوگئی، حسنِ اتفاق سے چمرن اپا کے ایک دوست نے جو باجی راؤ پیشوا کی ریاست بٹھور میں ایک ممتاز عہدہ پر فائز تھے، اس خاندان کو اپنے یہاں بلوالیا، منو کی ذہانت اور شرارت کو دیکھ کر باجی راؤ بھی اس کو بہت چاہنے لگے انہوں نے پیار سے اس لڑکی کو چھبیلی نام دیا، بعد میں وہ محل کے اندر پیشوا کے اکلوتے بیٹے نانا صاحب کے ساتھ تعلیم وتربیت حاصل کرنے لگی، ہر سال رکشا بندھن کا دن آتا تو منو اپنے بھائی کی طرح نانا صاحب کو راکھی بھی باندھتی۔

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

منونے جیسے ہی سنِ بلوغیت میں قدم رکھا، اس کی خوبصورتی، سمجھداری اور شہ سواری کے چرچے ہونے لگے ، اسی زمانے میں جھانسی کے راجہ گنگا دھر راؤ کی پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے پیشوا کی خدمت میں حاضر ہو کر منو بائی سے شادی کا پیغام دیا، جس کو منظور کرکے یہ شادی ہوگئی اور اس طرح منو بائی جھانسی کی رانی بن گئی، گنگا دھر راؤ نے منو بائی کا نام لکشمی بائی رکھا جو اتنا مشہور ہوا کہ سارے ملک میں عزت واحترام سے لیا جانے لگا، اس کے عزم وحوصلے، بہادری وجواں مردی کے اتنے چرچے ہوئے کہ یہ نام حریت وبہادری کی ایک روشن علامت بن گیا۔

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

گنگا دھر راؤ کے یہاں نہ تو پہلی بیوی سے اولاد ہوئی اور نہ ہی لکشمی بائی کے بطن سے اس کا والی پیدا ہوا تو اس نے ایک بچہ کو گود لے لیا، گورنر جنرل نے اس بچہ کو تخت کا وارث بنانے کا وعدہ بھی کرلیا۔

بعد ازاں 1853ء میں لارڈ لہوزی بھارت کا نیا گورنر جنرل بن کر وارد ہوا تو اس نے ایک ایسا قانون بنایا جس کی رو سے گود لئے بچہ کو تخت کا وارث نہیں بنایا جاسکتا بلکہ تمام لاولد حکمرانوں کی ریاستوں کو انگریزی حکومت میں شامل کرنے کا انتظام تھا، اسی قانون کے تحت راجہ کے انتقال پر انگریز حکومت نے جھانسی کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کا اعلان کردیا اور گود لئے ہوئے بچے دامودر راؤ نیز لکشمی بائی کے لئے سالانہ پینشن مقرر کردی، اس پینشن کی ادائیگی میں بھی انگریز حکمرانوں نے ناانصافی سے کام لیا۔

لہٰذا

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

دوسری طرف بٹھور کے نانا صاحب کے ساتھ انگریزوں نے اپنی روایتی بدمعاملگی کا مظاہرہ کیا، غیرت مند نانا صاحب جو پہلے سے ہی اپنی بہن لکشمی بائی کے ساتھ انگریزوں کی بد دیانتی پر چراغ پا تھے، بھڑک اٹھے۔ ان کے جانباز سپہ سالار تانتیا ٹوپے کا بھی یہی مشورہ تھا کہ ان ظالموں سے نپٹنے کیلئے اب جنگ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لہٰذا نانا صاحب کے مشورہ پر رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کا حکم ماننے سے انکار کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی، انگریز جو پہلے سے ہی ساری صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے جھانسی کی رانی کو پریشان کرنے لگے مگر قدرت نے اس نازک سی عورت کو فولاد کا دل اور چٹان جیسا حوصلہ بخشا تھا لہٰذا وہ مقابلہ کرتی رہی۔

حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی
حریت وشجاعت کی پیکر، جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی

اس درمیان ننھے خاں نام کے ایک پیشہ ور لٹیرے کو شہہ دے کر انگریزوں نے جھانسی پر حملہ کرادیا، رانی نہیں چاہتی تھی کہ آپس میں خون خرابہ ہو ، اس نے ننھے خاں سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ ننھے خاں نے تین لاکھ روپے کا مطالبہ کیا، رانی نے شر کو مٹانے کے جذبہ سے کسی طرح یہ مطالبہ پورا کردیا، کچھ دن بعد ہی انگریز حکمرانوں نے رانی پر بغاوت کا الزام لگاکر اس سے جواب طلب کیا، رانی شیرنی کی طرح گرج اٹھی اور کوئی باضابطہ جواب دینے سے صاف انکار کردیا، جس کے ردعمل میں سامراجی فوج رانی کو قید کرنے کیلئے جھانسی کی طرف بڑھنے لگی، رانی لکشمی بائی نے مردانہ فوجی لباس زیب تن کیا اور اپنی رعایا پرواضح کردیا کہ وقت آگیا ہے ہم انگریزوں کے بزدلانہ حملہ کا جواب دیں اور اگر اس راہ میں عزت کی موت ملے تو اس کو بھی گلے لگالیں، عوام نے رانی کی آواز پر لبیک کہہ کر ان سے عہد وفاداری کیا۔

دوسری طرف انگریزوں کا پیغام ملا کہ رانی خود کو ہمارے حوالے کردے، رانی کا برملا جواب تھا کہ ہندوستانی عورت خود کو صرف اپنے شوہر کے حوالے کرتی ہے کسی دوسرے کی یہ مجال نہیں کہ زندگی میں اسے ہاتھ لگالے، اس کے ساتھ ہی جھانسی کے قلعہ سے توپوں نے گرجنا شروع کردیا۔

دوسری طرف نانا صاحب اور تانتیا ٹوپے نے مورچہ سنبھال لیا اور ایک گھمسان کی جنگ چھڑگئی، شروع میں انگریز فوجیں اپنے حلیفوں کے ساتھ بھی کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں حاصل کرسکیں اسی عرصہ میں تانتیا ٹوپے کی شکست کا حال معلوم ہوا تو رانی کافی اداس ہوگئی، اس نے سوچا کہ وفادار مٹھی بھر جانباز سپاہی کب تک زبردست انگریز فوج کا مقابلہ کرسکیں گے انگریز بھی قلعہ کے کافی قریب پہونچ چکے تھے انہوں نے رانی کو زندہ جلانے کیلئے قلعہ کے چاروں طرف آگ لگادی، رانی اپنے گود لئے بیٹے کو گھوڑے پر سوار کرکے کسی طرح وہاں سے نکل گئی، برق رفتار گھوڑے نے ہوا سے باتیں کرتے ہوئے چوبیس گھنٹے میں ایک سو دو میل کا فاصلہ طے کرکے رانی کو صحیح و سلامت کالپی پہونچا دیا، جن فوجیوں نے پیچھا کیا ان میں سے بیشتر رانی کے ہاتھوں مارے گئے، کالپی میں نانا صاحب اپنی بہن کا استقبال کرنے کیلئے موجود تھے لیکن دوسرے ہی دن پیشوا کی فوج شکست سے دوچار ہوگئی تو دونوں بھائی بہن گوالیار کی طرف بڑھ گئے۔

گوالیار کا راج جیا جی راؤ سندھیا انگریزوں کا وفادار تھا عوام چاہتے تھے کہ راجہ بھی اس موقع پر جنگ کا اعلان کرے مگر وہ راضی نہ ہوا اور رعایا کے تیور دیکھ کر انگریزوں کی پناہ میں چلا گیا، دوسرے دن کرنل اسمتھ گوالیار پر حملہ آور ہوگیا وہاں دادِ شجاعت دینے کے لئے رانی خود جنگ میں کود پڑی، فتح قریب تھی کہ غدار دیوان راؤ دنکر انگریزوں سے جا ملا، پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے میدان جنگ کا نقشہ تبدیل ہوگیا، رانی صورت حال کی نزاکت کا احساس کرکے اپنے وفادار سپاہیوں کے ساتھ ایک سمت چل پڑی، دشمن کے سپاہی تعاقب میں تھے موقع پاکر ایک سپاہی نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ گال سمیت داہنی آنکھ باہر نکل آئی مگر شیردل رانی تلوار چلاتی رہی اس نے اپنے وفادار سپاہی چندر راؤ کو تاکید کی خبردار میرے جسم کو انگریز نہ ہاتھ لگاپائیں۔ پھر وہ گرپڑی، رام چندر راؤ نے وہیں چتا تیار کی، کچھ ہی دیر میں افق پر شفق کی سرخی پھیلنے لگی جو اس کی غماز تھی کہ ملک وقوم کیلئے جان نچھاوڑ کرنے والے مرتے نہیں، زمین پر گرا ہوا ان کے لہو کا ایک ایک قطرہ شفق کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.