ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں شہریت ترمیمی بل ملک میں ہندو مسلم کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والا ہے، اس بل کے ذریعے مودی حکومت مسلمانوں کے اندر ڈر و خوف پیدا کرنا چاہتی ہے۔
شہریت ترمیمی بل پر ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران تبادلہ خیال کرتے ہوئے سابق جسٹس عباس حیدر رضا نے کہا کہ یہ بل سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والا اور مذہبی جنون پیدا والا ہے۔
جسٹس عباس نے کہا کہ ملک کے دستور اور سٹیزن شپ ایکٹ میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مذہب کے نام پر کسی طرح کی تفریق نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں جو لوگ پیدا ہوئے یا آزادی کے پہلے آکر رہنے لگے ان سب کو شہری قرار دیا گیا، اس میں کہیں پر بھی مذہب سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ شہریت ترمیمی بل سپریم کورٹ میں چیلینج کیا جائے گا، یہ بات دیگر ہےکہ عدالت میں اس بل پر کیا فیصلہ ہوتا ہے۔
جسٹس نے کہا کہ بھارت کے آئین میں سیکولر کی بات کہی گئی ہے اور یہ بل آرٹیکل 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی کرتا ہے، لہذا شہریت ترمیمی بل بھارتی آئین کے منافی ہے اور بالکل غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ملک میں کسی کے ساتھ مذہب، رنگ و نسل اور زبان کے اعتبار سے تفریق نہیں کی جاسکتی۔
انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت پیش کی کہ اس بل میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کے ہندو، عیسائی، جین، بدھ، پارسی اور سکھ مذاہب کے لوگ اگر بھارت آکر قیام کرتے ہیں تو انہیں شہریت ترمیمی بل کے تحت بھارتی شہری مان لیا جائے گا، جس میں مسلمانوں کے لیے کوئی بات نہیں کہی گئی۔
جسٹس عباس نے کہا کہ اس بل کا مقصد صرف ایک خاص طبقے کے ووٹ کو اپنی طرف مائل کرکے اس کا فائدہ اٹھانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت یہ بہت ہی گھناؤنی سازش کررہی ہے۔ اس سے کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، خاص کر مسلمانوں کو اور تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان کبھی ڈرا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'کیب محض مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ ملک کے آئین کے خلاف بھی ہے'، یہی وجہ ہے کہ اس بل کی مخالفت آسام، ناگالینڈ وغیرہ میں بھی زبردست طریقے سے کی جارہی ہے۔