موت کی خبر سنتے ہی گاؤں کے لوگ آگ بگولہ ہوگئے اور رانی گنج پلیا پر سڑک جام کیا۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ مہلوک کے اہل خانہ کو معاوضہ فراہم کیا جائے اور خاطیوں کو سزا دی جائے۔
حالانکہ انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد مظاہرین نے احجاج ختم کیا۔
خیال رہے کہ 17-18 جولائی کی دیر رات سجیت کمار اپنے گاؤں تندولا سے سسرال اپنی اہلیہ کو لینے جا رہا تھے۔ شراب میں دھت راگھوپور پہونچنے پر کتوں کے دوڑانے پر وہ ایک گھر میں گھس گئے۔ موقع پر موجود ہجوم نے سجیت کو چور سمجھ کر بری طرح پٹائی کردی تھی۔
سجیت کمار نے انھیں بتایا کہ وہ اپنی بیوی کو واپس گھر لے جانے کے لیے آیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اس کی کوئی بات نہیں سنی۔ انھوں نے انہیں مبینہ طور پر چور بتا کر پیٹنا شروع کر دیا۔ ان کے کپڑے اتار دئیے گئے، ان کی پٹائی کی گئی اور پھر پٹرول ڈال کر آگ کے حوالے کر دیا گیا۔
کچھ لوگوں نے پولس کو خبر کردی جس کے بعد پولس نے سجیت کو بچایا۔ بری طرح زخمی سجیت کو ایک نجی ہسپتال لے جایا گیا اور پھر بعد میں لکھنؤ اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
اہل خانہ نے الزام لگایا تھاکہ سنجیت کو الکٹرک کرنٹ لگایا گیا تھا اور انہیں پیٹرول ڈال کر جلانے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔