الیکشن کمیشن نے تمام 11 اسمبلی حلقوں میں سنٹرل فورسز کو تعینات کیا ہے جوکہ اپنے متعینہ مقامات پر پہنچ کر ووٹرں میں اعتماد کی بحالی کے لئے فلیگ مارچ کررہے ہیں۔ان گیارہ اسمبلی سیٹوں کے لئے مجموعی طور پر 110 امیدوار میدان میں ہیں۔
وہیں تمام بڑی سیاسی پارٹیاں سبھی سیٹوں پر اپنی جیت کی دعویداری کے ساتھ حکمراں جماعت بی جے پی کو سخت چیلنج دینے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہی ہیں۔باجود اس کے اکثر سیٹوں پر بی جے پی امیدواروں کی سبقت دکھائی دیتی ہے لیکن کم سے کم تین سیٹوں بشمول گھوسی، رامپور اور جلالپور میں مقابلہ کافی سخت ہے۔
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سبھی اسمبلی حلقوں کا دورہ کر کے ریلیوں سے خطاب کیا۔
بی جے پی کو پہلا سخت چیلنج گھوسی اسمبلی سیٹ سے ملتا نظر آرہا ہے جہاں پارٹی نے 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بہت ہی معمولی ووٹوں سے جیت درج کی تھی۔اس وقت بی جے پی کے امیدوار بھوگو چوہان نے نریندر مودی کے ہوا کے باوجود صرف سات ہزار ووٹوں سے جیت درج کی تھی۔
اس سیٹ پر دوسرے نمبر پر رہنے والے بی ایس پی امیدوار نے 34 فیصدی ووٹ حاصل کئے تھے۔یہ سیٹ چوہان کے بہار کا گورنر نامزد کئے جانے کے بعد خالی ہوئی ہے۔اس وقت اس سیٹ سے بی جے پی نے وجے باجپائی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔پہلی بار انتخابی میدان میں اترنے والے باجپائی کو اپوزیشن سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امیبڈکر نگر کی جلال پور سیٹ جو کہ بی ایس پی کی گرفت والی سیٹ تصور کی جاتی ہے اور یہاں پر دلت، مسلم اور برہمن سماج کی اکثریت ہے۔بھگوار پارٹی کو اس سیٹ سے بھی سخت مقابلے کے امکانات ہیں۔ یہ سیٹ بی ایس پی کے رتیش پانڈے کے لوک سبھا ممبر منتخب ہونے کے بعد خالی ہوئی ہے۔
سنہ 2017 کے انتخابات میں اگرچہ بی جے پی امیدوار راجیش سنگھ کو جیت نہیں ملی تھی لیکن انہوں نے ضمنی انتخابات میں پارٹی کی بہتر کارکردگی کی توقعات کو بڑھا دیا ہے۔تاہم کافی لوگوں کو گما ن ہے کہ مسٹر سنگھ دوسرے نمبر پر صرف اس وجہ سے رہے تھے کہ ان کے والد کی اس علاقے میں کافی پکڑ تھی۔ بی جے پی یہاں اتنی مضبوط نہیں ہے۔
ایک دیگر سیٹ جہاں سے بی جے پی کو سخت چیلنج کے آثار بن رہے ہیں وہ رامپور کی سیٹ ہے ۔رامپور پر 1980 سے سماج وادی پارٹی کے قبضہ ہے۔ یہاں سے صرف 1996 میں کانگریس نے جیت درج کی تھی۔اس سیٹ سے ایس پی کے سنیئرلیڈر اعظم خان جیتے رہے ہیں۔
سماج وادی پارٹی کی ہولڈ والی سیٹ پر چہار رخی مقابلے کی امید ہےجہاں پر مسلم ووٹ ایس پی،بی ایس پی اور کانگریس امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوسکتا۔بی جے پی نے اس سیٹ سے بھارت بھوشن سنگھ کو انتخابی میدان میں اتارا ہے تو وہیں سماج وادی پارٹی نے اس سیٹ پر اپنی جیت کی توقعات کو بڑھانے کے لئے اعظم خان کی بیوی کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔
سیاسی ماہرین کا احساس ہے کہ بی جے پی کی انتخابی تیاریاں دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور منظم ہیں۔ بی جے پی کی نظر اپوزیشن کے تقسیم پر بھی ہے اور اس کا اسے فائدہ بھی مل سکتا ہے۔بی ایس پی کا ضمنی انتخا ب میں اترنا بی جے پی کے لئے سود مند ثابت ہورہا ہے۔کمزور اپوزیشن نے حکومت کے سامنے مہنگائی اور بے روزگاری کے مسئلے کو کمزور کردیا ہے۔
سہارنپور کے گنگوہ سیٹ پر بی جے پی سبقت لے جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔اس سیٹ پر 2017 کے انتخابات کے اعداد وشمار پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی نے سب سے زیادہ 39 فیصدی ووٹ حاصل کئے تھے۔جبکہ دوسرے نمبر پر رہنے والےکانگریس کے امیدوار نے 24 فیصدی ووٹ حاصل کئے تھے۔ سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کو یہاں پر 18 ۔18 فیصدی ووٹ ملے تھے۔اس سیٹ پر ’سوئنگ فیکٹر‘ کسی بھی پارٹی کے حق میں ماحول کو سازگار کرسکتا ہے۔تاہم بی جے پی کے کیرت سنگھ کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
بارہ بنکی میں زید پور سیٹ پر سابق ایم پی اور سینئر لیڈر پی ایل پنیا کے بیٹے تنج پنیا کانگریس کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں ہیں۔بارہ بنکی کی سیاست میں پنیا کی خاصی پکڑ تصور کی جاتی ہے۔اگرچہ سے اس سے قبل وہ دو انتخابات میں بی جے پی امیدوار سے شکست سے دوچار ہوچکے ہیں لیکن اس بار بی جے پی امیدوار امریش راوت کے لئے جیت درج کرنا آسان نہ ہوگا۔
اس کے علاوہ بقیہ لکھنؤ کینٹ، پرتاپ گڑھ، اگلاس، گوند گنر، کانپور اور بلہا میں بی جے پی کو سبقت حاصل ہے۔باوجود اس کے بی جے پی کے لئے یہ الیکشن اتنا آسان نہیں ہے اسے اپوزیشن سے کے تقسیم کے باوجود سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اترپردیش: انتخابی مہم شباب پر
اترپردیش میں 11 اسمبلی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے لئے انتخابی مہم اپنے شباب پر ہے۔ان سیٹوں کے لئے انتخابی مہم کا اختتام ہفتہ کی شام چھ بجے ہوگی اور 21 اکتوبر کو صبح سات بجے سے شام چھ بجے تک ووٹ ڈالے جائیں گے۔جبکہ ووٹوں کی گنتی 24 اکتوبر کو ہوگی۔
الیکشن کمیشن نے تمام 11 اسمبلی حلقوں میں سنٹرل فورسز کو تعینات کیا ہے جوکہ اپنے متعینہ مقامات پر پہنچ کر ووٹرں میں اعتماد کی بحالی کے لئے فلیگ مارچ کررہے ہیں۔ان گیارہ اسمبلی سیٹوں کے لئے مجموعی طور پر 110 امیدوار میدان میں ہیں۔
وہیں تمام بڑی سیاسی پارٹیاں سبھی سیٹوں پر اپنی جیت کی دعویداری کے ساتھ حکمراں جماعت بی جے پی کو سخت چیلنج دینے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہی ہیں۔باجود اس کے اکثر سیٹوں پر بی جے پی امیدواروں کی سبقت دکھائی دیتی ہے لیکن کم سے کم تین سیٹوں بشمول گھوسی، رامپور اور جلالپور میں مقابلہ کافی سخت ہے۔
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سبھی اسمبلی حلقوں کا دورہ کر کے ریلیوں سے خطاب کیا۔
بی جے پی کو پہلا سخت چیلنج گھوسی اسمبلی سیٹ سے ملتا نظر آرہا ہے جہاں پارٹی نے 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بہت ہی معمولی ووٹوں سے جیت درج کی تھی۔اس وقت بی جے پی کے امیدوار بھوگو چوہان نے نریندر مودی کے ہوا کے باوجود صرف سات ہزار ووٹوں سے جیت درج کی تھی۔
اس سیٹ پر دوسرے نمبر پر رہنے والے بی ایس پی امیدوار نے 34 فیصدی ووٹ حاصل کئے تھے۔یہ سیٹ چوہان کے بہار کا گورنر نامزد کئے جانے کے بعد خالی ہوئی ہے۔اس وقت اس سیٹ سے بی جے پی نے وجے باجپائی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔پہلی بار انتخابی میدان میں اترنے والے باجپائی کو اپوزیشن سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امیبڈکر نگر کی جلال پور سیٹ جو کہ بی ایس پی کی گرفت والی سیٹ تصور کی جاتی ہے اور یہاں پر دلت، مسلم اور برہمن سماج کی اکثریت ہے۔بھگوار پارٹی کو اس سیٹ سے بھی سخت مقابلے کے امکانات ہیں۔ یہ سیٹ بی ایس پی کے رتیش پانڈے کے لوک سبھا ممبر منتخب ہونے کے بعد خالی ہوئی ہے۔
سنہ 2017 کے انتخابات میں اگرچہ بی جے پی امیدوار راجیش سنگھ کو جیت نہیں ملی تھی لیکن انہوں نے ضمنی انتخابات میں پارٹی کی بہتر کارکردگی کی توقعات کو بڑھا دیا ہے۔تاہم کافی لوگوں کو گما ن ہے کہ مسٹر سنگھ دوسرے نمبر پر صرف اس وجہ سے رہے تھے کہ ان کے والد کی اس علاقے میں کافی پکڑ تھی۔ بی جے پی یہاں اتنی مضبوط نہیں ہے۔
ایک دیگر سیٹ جہاں سے بی جے پی کو سخت چیلنج کے آثار بن رہے ہیں وہ رامپور کی سیٹ ہے ۔رامپور پر 1980 سے سماج وادی پارٹی کے قبضہ ہے۔ یہاں سے صرف 1996 میں کانگریس نے جیت درج کی تھی۔اس سیٹ سے ایس پی کے سنیئرلیڈر اعظم خان جیتے رہے ہیں۔
سماج وادی پارٹی کی ہولڈ والی سیٹ پر چہار رخی مقابلے کی امید ہےجہاں پر مسلم ووٹ ایس پی،بی ایس پی اور کانگریس امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوسکتا۔بی جے پی نے اس سیٹ سے بھارت بھوشن سنگھ کو انتخابی میدان میں اتارا ہے تو وہیں سماج وادی پارٹی نے اس سیٹ پر اپنی جیت کی توقعات کو بڑھانے کے لئے اعظم خان کی بیوی کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔
سیاسی ماہرین کا احساس ہے کہ بی جے پی کی انتخابی تیاریاں دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور منظم ہیں۔ بی جے پی کی نظر اپوزیشن کے تقسیم پر بھی ہے اور اس کا اسے فائدہ بھی مل سکتا ہے۔بی ایس پی کا ضمنی انتخا ب میں اترنا بی جے پی کے لئے سود مند ثابت ہورہا ہے۔کمزور اپوزیشن نے حکومت کے سامنے مہنگائی اور بے روزگاری کے مسئلے کو کمزور کردیا ہے۔
سہارنپور کے گنگوہ سیٹ پر بی جے پی سبقت لے جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔اس سیٹ پر 2017 کے انتخابات کے اعداد وشمار پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی نے سب سے زیادہ 39 فیصدی ووٹ حاصل کئے تھے۔جبکہ دوسرے نمبر پر رہنے والےکانگریس کے امیدوار نے 24 فیصدی ووٹ حاصل کئے تھے۔ سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کو یہاں پر 18 ۔18 فیصدی ووٹ ملے تھے۔اس سیٹ پر ’سوئنگ فیکٹر‘ کسی بھی پارٹی کے حق میں ماحول کو سازگار کرسکتا ہے۔تاہم بی جے پی کے کیرت سنگھ کوئی بھی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
بارہ بنکی میں زید پور سیٹ پر سابق ایم پی اور سینئر لیڈر پی ایل پنیا کے بیٹے تنج پنیا کانگریس کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں ہیں۔بارہ بنکی کی سیاست میں پنیا کی خاصی پکڑ تصور کی جاتی ہے۔اگرچہ سے اس سے قبل وہ دو انتخابات میں بی جے پی امیدوار سے شکست سے دوچار ہوچکے ہیں لیکن اس بار بی جے پی امیدوار امریش راوت کے لئے جیت درج کرنا آسان نہ ہوگا۔
اس کے علاوہ بقیہ لکھنؤ کینٹ، پرتاپ گڑھ، اگلاس، گوند گنر، کانپور اور بلہا میں بی جے پی کو سبقت حاصل ہے۔باوجود اس کے بی جے پی کے لئے یہ الیکشن اتنا آسان نہیں ہے اسے اپوزیشن سے کے تقسیم کے باوجود سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
article id
Conclusion: