غازی آباد: اترپردیش میں مسلمانوں کے مکانات کو بلڈوزر سے گرانے کا عمل جاری ہے۔ آج عثمان گڑھی میں 400 گھر ہیں ایسا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ڈاسنہ کے دیہی علاقے میں عثمان گڑھی نام کی جگہ پر 60 بیگھوں کا سرکاری تالاب ہوا کرتا تھا۔ سال 1990 سے ایس پی لیڈر عثمان چودھری نے کچھ افسران اور ملازمین کی مدد سے اس تالاب پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ پھر کالونی کاٹ دی گئی۔ Bulldozer Demolished Illegal Construction in Ghaziabad
انہوں نے اس کالونی کا نام 'عثمان گڑھی' رکھا۔ آج بھی پانی کی ٹینک اور کالونی کے مین گیٹ پر 'عثمان گڑھی' لکھا ہوا ہے۔ تقریباً 400 گھروں میں ڈھائی ہزار کی آبادی ہے اور زیادہ تر لوگ محنت مزدوری سے وابستہ ہیں۔ ابتدا میں عثمان نے کالونی بنانے کے لیے رقم قسطوں میں لے کر زمین بیچ دی اور اس کا نام 'عثمان گڑھی' ہو گیا۔
سال 2018 میں غازی آباد تحصیل کے اس وقت کے تحصیلدار نے اس پر بے دخلی کا حکم دیا تھا لیکن اس وقت بعض وجوہات کی بنا پر اس حکم پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔ جمعرات کو غازی آباد کے ایس ڈی ایم صدر ونے کمار سنگھ اور ایس پی دیہات ایرج راجہ بڑی تعداد میں پولیس فورس کے ساتھ عثمان گڑھی پہنچے۔ یہاں انہوں نے عثمان اور اس کے دو بھائیوں کے مکانات کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا۔ Bulldozer Demolished Illegal Construction in Ghaziabad
ایس ڈی ایم نے کہا، وہ دو اور مکانات کو گرانے بھی پہنچے تھے، لیکن ان میں رہنے والے لوگوں کے پاس ہائی کورٹ کا حکم امتناعی تھا۔ ایس ڈی ایم نے کہا کہ یہ زمین تالاب کی ہے۔ اسے خالی کرنے کا عمل اب جاری رہے گا۔عثمان گڑھی کے رہائشی ساجد علی نے بتایا کہ انتظامیہ نے پہلے غیر قانونی مکانات گرانے کے نوٹس چسپاں کرنے کے لیے 6 مئی کی تاریخ مقرر کی تھی۔ لیکن انتظامیہ نے 27 اپریل کو اچانک نوٹس چسپاں کر دیا اور 28 اپریل کو مکان کو گرانا شروع کر دیا۔ انتظامیہ نے مکانات خالی کرنے یا نوٹس کا جواب دینے کا موقع بھی نہیں دیا۔
ساجد نے کہا کہ اگر یہ گھر غیر قانونی تھے تو کیوں بنائے گئے، رجسٹری کیسے ہوئی؟ اس لیے سب سے پہلے غیر قانونی تعمیرات کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ فی الحال ہم بلڈوزر کی کارروائی کے خلاف عدالت جائیں گے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ غازی آباد کے بہت سے علاقوں میں تعمیرات غیر قانونی ہیں لیکن وہاں پولیس اور بلڈوزر نہیں جاتے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔