آج ہم آپ کو بنارس کے معروف فنکار، شہنائی نواز، بھارت رتن استاد بسم اللہ خان کا واقعہ سنائیں گے جنہوں نے شہنائی بجاکر آزادی کا خیر مقدم کیا تھا.
15 اگست 1947 کو بھارت کی آزادی کے موقع پر استاد بسم اللہ خان کو آزادی کے استقبال کے لیے شہنائی بجانے کی دعوت دی گئی تھی۔ جب آزادی کے استقبال کے لیے دہلی کے لال قلعے پر استاد بسم اللہ خان شہنائی بجانے پہنچے تو اس وقت پنڈت نہرو نے بسم اللہ خان سے کہا تھا کہ خان صاحب آپ چلتے ہوئے شہنائی بجائیں گے۔ استاد بسم اللہ خان کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ صرف محرم کے لیے خاص ہے.
پنڈت نہرو نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ آپ کے پیچھے ملک کی سبھی سرکردہ شخصیات و رہنما ہوں گے اور آپ آگے آگے چلیں گے۔ اس وقت استاد بسم اللہ خان نے پنڈت نہرو کی بات مانی تھی اور شہنائی بجاکر آزادی کا استقبال کیا تھا۔
اس وقت استاد بسم اللہ خان کی شہنائی کی مسحور کن آواز نے بین الاقوامی سطح پر شہرت پائی اور پنڈت نہرو بسم اللہ خان کے اس فن سے اتنا متاثر ہوئے کہ بسم اللہ خان کو استاد کا لقب دیا۔
اسی وقت سے بسم اللہ خان کو استاد بسم اللہ خان کہا جانے لگا. بسم اللہ خان کی پیدائش 21 مارچ 1916 کو ریاست بہار کے بکسر ضلع کے ڈمراں گاؤں میں ہوئی تھی اور 21 اگست 2006 کو بنارس میں ان کا انتقال ہوا۔
استاد بسم اللہ خان بنارس کے بالاجی مندر میں برسوں تک شہنائی بجاتے رہے۔ بنارس کے مزاج کو اپنی روح میں جذب کرلینے والے استاد بسم اللہ خان نے اپنی پوری زندگی شہنائی اور اس کی موسیقی میں کھپادی۔ مندر، شادی بیاہ، راجا رجواڑے کے دربار تک محدود شہنائی بجانے کی روایت کو ختم کر کے اس کو اوجِ کمال تک پہنچایا اور بین الاقوامی سطح پر اپنے اس منفرد فن کے ذریعہ اعلیٰ مقام حاصل کیا اور ملک کے اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ بھارت رتن سے بھی نوازے گئے۔
یہ بھی پڑھیں۔بنارس: استاد بسم اللہ خان کے نام سے منسوب سڑک خستہ حال
بسم اللہ خان عزاداری کے ایام میں بنارس کی درگاہ فاطمان میں شہنائی بجاتے تھے اور امام حسین سے بے حد محبت کرتے تھے۔ محرم کے ایام میں خان صاحب چپل نہیں پہنتے تھے۔ وہ درگاہ فاطمان میں ایک کنویں کے قریب چٹائی بچھاکر شہنائی بجاتے تھے اور محرم کے جلوس میں شرکت کرتے تھے۔ بسم اللہ خان جس مقام پر بیٹھ کر شہنائی بجاتے تھے، اسی جگہ پر آج وہ مدفون ہیں۔
استاد بسم اللہ خان نے اپنے پیچھے ایک بڑا کنبہ چھوڑا تھا، ان کے کنبہ کے افراد آج در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بسم اللہ خان کے پوتے آفاق حیدر بتاتے ہیں کہ کسی کے پاس نہ مستقل ملازمت ہے اور نہ ہی ذریعہ معاش کا کوئی انتظام ہے، بسم اللہ خان نے آزادی کا استقبال شہنائی بجاکر کیا، ملک کا نام روشن کیا، شہنائی کو ایک مقام عطا کیا۔ آج پورے ملک کو استاد بسم اللہ خان پر فخر ہے لیکن آج ان کے کنبہ کے افراد لاچاری، بے بسی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں.
آفاق حیدر کہتے ہیں کہ حکومت کی عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ استاد بسم اللہ خان سے وابستہ یادوں کی بھی حفاظت نہیں کی جارہی ہے، جس کمرے میں انہوں نے پوری زندگی شہنائی بجائی اس وقت وہ خستہ حال ہے. بیشتر تصویروں میں دیمک لگی ہیں۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ استاد بسم اللہ خان کی تمام نشانیوں کی حفاظت کرے اور جس کمرے میں انہوں نے رہ کر پوری زندگی شہنائی بجائی اس کی تزئین کاری کرے۔