ETV Bharat / state

بارہ بنکی میں سماجی کارکن کی پرچہ نامزدگی

ریاست اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی کی زیدپور اسمبلی نشست پر ہو نے والے ضمنی انتخابات کے لیے سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔

author img

By

Published : Sep 27, 2019, 9:13 AM IST

Updated : Oct 2, 2019, 4:36 AM IST

بارہ بنکی میں سماجی کارکن کی پرچہ نامزدگی

بارہ بنکی میں پسماندہ اور اقلیتی طبقے کے لیے ہمیشہ سر گرم رہنے والے ہری نندن گوتم نے پرچہ نامزدگی داخل کیا۔

نندن گوتم نے ناگرک ایکتا پارٹی کی طرف سے پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تو وہ سماجی برابری کے لیے کام کریں گے۔

بارہ بنکی میں سماجی کارکن کی پرچہ نامزدگی

بارہ بنکی کے اے ڈی ایم کورٹ سے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے بعد ہری نندن گوتم نے کہا کہ 'ملک کو آزاد ہوئے 70 برس سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں، لیکن ابھی بھی سماجی برابری حاصل نہیں ہوئی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'سماج میں برابری لائے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی'۔

یاد رہے کہ زید پور اسمبلی سیٹ پر ضمنی انتخاب کے لیے 21 اکتوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔

بارہ بنکی میں پسماندہ اور اقلیتی طبقے کے لیے ہمیشہ سر گرم رہنے والے ہری نندن گوتم نے پرچہ نامزدگی داخل کیا۔

نندن گوتم نے ناگرک ایکتا پارٹی کی طرف سے پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تو وہ سماجی برابری کے لیے کام کریں گے۔

بارہ بنکی میں سماجی کارکن کی پرچہ نامزدگی

بارہ بنکی کے اے ڈی ایم کورٹ سے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے بعد ہری نندن گوتم نے کہا کہ 'ملک کو آزاد ہوئے 70 برس سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں، لیکن ابھی بھی سماجی برابری حاصل نہیں ہوئی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'سماج میں برابری لائے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی'۔

یاد رہے کہ زید پور اسمبلی سیٹ پر ضمنی انتخاب کے لیے 21 اکتوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔

Intro:شب بھر رہے فوارے میں فوارے کی مانند
ہوتے ہیں سحر ڈوب گئے تارے کے مانند
طضیانی 1908ء نواب میر محبوب علی خاں بہادر کے انتقال سے تین سال پیشتر حیدرآباد کو سنہ 1908ء کی طغیانی عظیم طوفان کا سامنا کرنا پڑا- ہفتہ 28 ستمبر 1908ء کو طغیانی اچانک اور غیر متوقع طور پر نازل ہوئی طغیانی سے ایک ہفتہ پہلے موسم معمول کے مطابق تھا کہ یکیم جون تک بارش معمول سے بہت کم ہوئی تھی ہفتے کے دوپہر تک ہی کچھ بارش ہوتی رہی البتہ چار بجے شام سے زوردار بارش ہوئی جس کے سلسلہ شام ساڑھے چھ بجے تک جاری رہی رات کے ساڑھے گیارہ بجے سے اتوار کی صبح تک طوفانی بارش ہوئی اتوار کے دن کبھی شدید اور کبھی معمولی بارش کا سلسلہ جاری رہا لیکن رات میں اس قدر بارش ہوئی جیسے بادل ہمیشہ کے لئے پھٹ پڑا ہو - اس اس قسم کی شدید بارش لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اس مسلسل بارش سے کئی چھوٹے تالابوں کے پشتے ٹوٹ کے گئے اور شہر میں زبردست درانی آگئی ابھی اٹھی ستمبر1988 کو 24گھنٹوں میں میں 14.5 اس انچ بارش ریکارڈ کی گئی ایک رپورٹ کے کے معجب جب 29 ستمبر بروز اتوار صبح 6 بجے تک ک ندی میں چار فٹ کی سطح پر پانی بہہ رہا تھا 20 فٹ تک پہنچ گئی- یعنی کا پانی پرانے پل کے اوپر سے بہہ رہا تھا پرانے پل کی تفصیل جو شمشان گھاٹ کے مقابل واقعی تھی پانی کے بہاؤ کو روکنا اس کی پانی شہر کی جانب فی گھنٹہ چار فٹ کی رفتار سے بڑھتا رہا تمام پل زیرآب ہوگئے طغیانی کی شدت بڑھتی گئی ہر طرف تباہی موت اور دہشت رقصاں تھی- شہر کے چار پھولوں میں سب سے زیادہ افضل پل کو نقصان پہنچا محلہ کل ساری میں دو ہزار افراد پانی میں محصور ہو گئے گئے جو جو یا تو پانی میں ڈوب گئے یا پھر تیز روح کے ساتھ بہہ گئے - لوگ اپنی جان بچانے کے لئے ایک گھنے چھاڑ پر تقریبا پچاس ہزار افراد پناہ لینے کے لیے چڑھ گئے تھے یہ درخت تیز بہاؤ کا مقابلہ نہ کر سکا اور سب لوگ جھاڑ کے ساتھ بہتے چلے گئے - طغیانی کی تباہی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اموات زیادہ تر مکانات کے نظام اور بہہ جانے سے ہوئی وی یہ ٹوریا زنانہ ہاسپٹل کے تمام مریضوں خبریں فری محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا اور وہ محفوظ رہے رہے ہیں ندی اترنے کے بعد موت اور تباہی کا دردناک اثر دیکھنے نہ جاتے تھے کئ مسخ شدہ لاشیں ملبے میں دبی ہوئی تھی کچھ کیچڑ میں آدھی دھَی ہوئی تھی - 15000 ہزار سے زیادہ گھر بہہ گئے گئے لوگ اپنی جان بچانے کے لئے لیے اونچے مقامات چلے گئے عثمانیہ ہسپتال کے احاطے میں میں ایک املی کا درخت ہے ہے جس پر پر150 لوگ لوگ اپنی زندگی بچانے کے لیے چڑھ گئے اور ان کی زندگی بچ گئی گی گی آج بھی طغیانی کا زندہ گواہ املی کا درخت موجود ہے اس کے علاوہ گوشہ محل اسٹیڈیم ایم اے لوگوں نے اپنی زندگی بچائیں پرانے پل کے قریب مسجد میاں مشک جب اونچائی پر ہیں ہے لوگوں نے نے اپنی جان بچانے کے لئے اس مسجد کے چھت پر چڑھ گئے اور اپنی زندگی بھی محفوظ کرلیں شیشم نظام ج میر محبوب علی خاں بہادر نے عوام میں راحت پہنچانے کے لیے یے اپنے پورے رے عملہ کو لگوا دیا - ظغیانی طوفان کے 3 سال بعد میرامحبوب علی خان بہادر کا انتقال ہوگیا- 1911ء میں حضرت نظام میر ثابت عثمان علی خاں بہادر میں موسی ندی تعمیر کروائے اسی کے ساتھ عثمان ساگر حمایت ساگر بھی تعمیر کروایا - موسی ندی دنیا کی سب سے طویل ندی ہے - لکین اج وہ گیند کے مرکز بنا ہوا ہے ندی صاف کرنے کے وعدہ تو کیے گئے لیکن ابھی تک اسے پورا نہیں کیا گیا - طغیانی جہاں سے سے بہہ رہی تھی اس وقت میرا محبوب علی خاں بہادر نے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے تختیاں نصیب کی جو اج بھی میاں مشک مسجد اور مسجد برق جنگ پر اوپر نظر آتی ہے یہ تختیاں کی اونچائی تک پانی کی سطح تھی - حیدرآباد کے ممتاز رباعی گو صوفی شاعر حضرت امجد حیدرآبادی کا مختصر مکان موسی ندی کے کنارے واقع تھا - طغیانی میں مکان اور اہل خانہ بہہ گئے اور صرف حضرت امجد کسی نہ کسی طرح باقی رہ گئے امجد کئ اشعار میں طغیانی کی تباہی کا ذکر ہے - سو سال سے زیادہ عرصے کے بعد حیدرآباد میں سبتمبر میں طوفانی بارش نظر آرہی ہے -
بائٹ انعام الرحمان غیور ( تاریخ داں)
صمد وارثی( صدر مسجد میاں مشک)


Body:شب بھر رہے فوارے میں فوارے کی مانند
ہوتے ہیں سحر ڈوب گئے تارے کے مانند
طضیانی 1908ء نواب میر محبوب علی خاں بہادر کے انتقال سے تین سال پیشتر حیدرآباد کو سنہ 1908ء کی طغیانی عظیم طوفان کا سامنا کرنا پڑا- ہفتہ 28 ستمبر 1908ء کو طغیانی اچانک اور غیر متوقع طور پر نازل ہوئی طغیانی سے ایک ہفتہ پہلے موسم معمول کے مطابق تھا کہ یکیم جون تک بارش معمول سے بہت کم ہوئی تھی ہفتے کے دوپہر تک ہی کچھ بارش ہوتی رہی البتہ چار بجے شام سے زوردار بارش ہوئی جس کے سلسلہ شام ساڑھے چھ بجے تک جاری رہی رات کے ساڑھے گیارہ بجے سے اتوار کی صبح تک طوفانی بارش ہوئی اتوار کے دن کبھی شدید اور کبھی معمولی بارش کا سلسلہ جاری رہا لیکن رات میں اس قدر بارش ہوئی جیسے بادل ہمیشہ کے لئے پھٹ پڑا ہو - اس اس قسم کی شدید بارش لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اس مسلسل بارش سے کئی چھوٹے تالابوں کے پشتے ٹوٹ کے گئے اور شہر میں زبردست درانی آگئی ابھی اٹھی ستمبر1988 کو 24گھنٹوں میں میں 14.5 اس انچ بارش ریکارڈ کی گئی ایک رپورٹ کے کے معجب جب 29 ستمبر بروز اتوار صبح 6 بجے تک ک ندی میں چار فٹ کی سطح پر پانی بہہ رہا تھا 20 فٹ تک پہنچ گئی- یعنی کا پانی پرانے پل کے اوپر سے بہہ رہا تھا پرانے پل کی تفصیل جو شمشان گھاٹ کے مقابل واقعی تھی پانی کے بہاؤ کو روکنا اس کی پانی شہر کی جانب فی گھنٹہ چار فٹ کی رفتار سے بڑھتا رہا تمام پل زیرآب ہوگئے طغیانی کی شدت بڑھتی گئی ہر طرف تباہی موت اور دہشت رقصاں تھی- شہر کے چار پھولوں میں سب سے زیادہ افضل پل کو نقصان پہنچا محلہ کل ساری میں دو ہزار افراد پانی میں محصور ہو گئے گئے جو جو یا تو پانی میں ڈوب گئے یا پھر تیز روح کے ساتھ بہہ گئے - لوگ اپنی جان بچانے کے لئے ایک گھنے چھاڑ پر تقریبا پچاس ہزار افراد پناہ لینے کے لیے چڑھ گئے تھے یہ درخت تیز بہاؤ کا مقابلہ نہ کر سکا اور سب لوگ جھاڑ کے ساتھ بہتے چلے گئے - طغیانی کی تباہی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اموات زیادہ تر مکانات کے نظام اور بہہ جانے سے ہوئی وی یہ ٹوریا زنانہ ہاسپٹل کے تمام مریضوں خبریں فری محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا اور وہ محفوظ رہے رہے ہیں ندی اترنے کے بعد موت اور تباہی کا دردناک اثر دیکھنے نہ جاتے تھے کئ مسخ شدہ لاشیں ملبے میں دبی ہوئی تھی کچھ کیچڑ میں آدھی دھَی ہوئی تھی - 15000 ہزار سے زیادہ گھر بہہ گئے گئے لوگ اپنی جان بچانے کے لئے لیے اونچے مقامات چلے گئے عثمانیہ ہسپتال کے احاطے میں میں ایک املی کا درخت ہے ہے جس پر پر150 لوگ لوگ اپنی زندگی بچانے کے لیے چڑھ گئے اور ان کی زندگی بچ گئی گی گی آج بھی طغیانی کا زندہ گواہ املی کا درخت موجود ہے اس کے علاوہ گوشہ محل اسٹیڈیم ایم اے لوگوں نے اپنی زندگی بچائیں پرانے پل کے قریب مسجد میاں مشک جب اونچائی پر ہیں ہے لوگوں نے نے اپنی جان بچانے کے لئے اس مسجد کے چھت پر چڑھ گئے اور اپنی زندگی بھی محفوظ کرلیں شیشم نظام ج میر محبوب علی خاں بہادر نے عوام میں راحت پہنچانے کے لیے یے اپنے پورے رے عملہ کو لگوا دیا - ظغیانی طوفان کے 3 سال بعد میرامحبوب علی خان بہادر کا انتقال ہوگیا- 1911ء میں حضرت نظام میر ثابت عثمان علی خاں بہادر میں موسی ندی تعمیر کروائے اسی کے ساتھ عثمان ساگر حمایت ساگر بھی تعمیر کروایا - موسی ندی دنیا کی سب سے طویل ندی ہے - لکین اج وہ گیند کے مرکز بنا ہوا ہے ندی صاف کرنے کے وعدہ تو کیے گئے لیکن ابھی تک اسے پورا نہیں کیا گیا - طغیانی جہاں سے سے بہہ رہی تھی اس وقت میرا محبوب علی خاں بہادر نے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے تختیاں نصیب کی جو اج بھی میاں مشک مسجد اور مسجد برق جنگ پر اوپر نظر آتی ہے یہ تختیاں کی اونچائی تک پانی کی سطح تھی - حیدرآباد کے ممتاز رباعی گو صوفی شاعر حضرت امجد حیدرآبادی کا مختصر مکان موسی ندی کے کنارے واقع تھا - طغیانی میں مکان اور اہل خانہ بہہ گئے اور صرف حضرت امجد کسی نہ کسی طرح باقی رہ گئے امجد کئ اشعار میں طغیانی کی تباہی کا ذکر ہے - سو سال سے زیادہ عرصے کے بعد حیدرآباد میں سبتمبر میں طوفانی بارش نظر آرہی ہے -
بائٹ انعام الرحمان غیور ( تاریخ داں)
صمد وارثی( صدر مسجد میاں مشک)


Conclusion:
Last Updated : Oct 2, 2019, 4:36 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.