ریاست اترپردیش کے ضلع شاہجہاں پور کے محلہ امنزئی جلال نگر میں شہید اشفاق اللہ خان 22 اکتوبر 1900 کو پیدا ہوئے تھے، انہوں نے شاہ جہان پور کے اے وی رچ انٹر کالج سے تعلیم حاصل کی۔ رام پرساد بسمل یہاں ان کے ہم جماعت تھے۔ دونوں کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آریہ سماج مندر میں ملک کی آزادی کا خاکہ تیار کرتے تھے۔ اسی وجہ سے آج بھی یہ آریہ سماج مندر ہندو مسلم اتحاد کی مثال ہے۔
شاہجہاں پور شہداء کی نگری مانی جاتی ہے، یہیں سے ہی کاکوری واقعہ کا لائحہ عمل تیار کیا گیا تھا جس کے بعد کاکوری واقعہ کو اختتام تک پہنچایا گیا، اس کے بعد انگریزوں نے تین انقلابی رہنماوں کو گرفتار کرکے مختلف جیلوں میں ڈال دیا اور 19 دسمبر 1927 کو ان عظیم رہنماوں کو پھانسی دے دی گئی۔
شاہجہان پور میں 19 دسمبر کو شہید اشفاق اللہ خان کی مزار پر ایک خصوصی پروگرام کرکے انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ شہید اشفاق اللہ خان کے پڑپوتے اشفاق اللہ کا کہنا ہے کہ شہید اشفاق اللہ خان کی پھانسی سے قبل کنبہ ان سے ملنے گیا تھا اور انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ وہ ملک کی آزادی کے لئے اپنی جان دے رہے ہیں۔
اشفاق اللہ خان نے کہا تھا کہ 'راستہ چاہے الگ ہو لیکن مقصد سب کا ایک ہے۔ سبھی کام ایک ہی مقصد کی تکمیل کے لیے ہیں۔ پھر یہ بیکار کی لڑائی جھگڑے کیوں؟
ایک ہو کر ملک کی نوکرشاہی کا مقابلہ کرو اپنے ملک کو آزاد کراؤ۔ ملک کے سات کروڑ مسلمانوں میں، میں پہلا مسلمان ہوں جو ملک کی آزادی کے لیے پھانسی چڑھ رہا ہوں، یہ سوچ کر مجھے فخر ہوتا ہے'۔
آخر میں سب کو میرا سلام! ہندوستان آزاد ہو۔ میرے بھائی خوش رہیں۔
آپ کا بھائی اشفاق '
یہ خط ہے مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان کا، کاکوری معاملے میں اہم کردار ادا کرنے والے اشفاق اللہ کو انگریزوں نے پھانسی کی سزا سنائی۔
پھانسی سے تین روز قبل یعنی 16 دسمبر 1927 کو یہ خط انہوں نے ملک کے لوگوں کے لیے لکھا۔
شہید اشفاق اللہ خاں کی پیدائش 22 اکتوبر 1900 میں اترپردیش کے شاہجہاں پور میں ہوئی تھی۔
انہیں بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق کم تھا لیکن گھوڑ سواری، نشانے بازی اور شکار کرنے میں دلچسپی تھی۔
ہٹنے کے نہیں پیچھے، ڈر کر کبھی ظلموں سے
تم ہاتھ اٹھاؤگے، ہم پیر بڑھادیں گے۔
بے شستر نہیں ہیں ہم، بل ہے ہمیں چرخے کا،
چرخے سے زمین کو ہم، تا چرخ گونجا دیں گے
اشفاق کی نظمیں اور اردو شاعری مجاہدین آزادی کے لیے مشعل راہ بن گئیں
مہاتما گاندھی کے خیالات سے متاثر اشفاق، گاندھی جی کے ذریعے نو کوآپریشن تحریک واپس لینے پر ناراض ہوئے اس کے بعد آریہ سماجی تنظیم کے لیے کام کرنے والے رام پرساد بسمل کے ساتھ آزاد بھارت کے لیے تحریک شروع کی، انہوں نے ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن میں شامل ہو کر کام شروع کیا۔
چندر شیکھر آزاد، رام پرساد بسمل، 9 اگست 1925 کی رات میں اشفاق اللہ خان، راجندر لہری، روشن سنگھ اور ان کے دیگر ساتھی رات میں قریب ساڑھے سات بجے لکھنؤ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع کاکوری ریلوے اسٹیشن گئے۔
کاکوری اور عالم نگر کے درمیان سہارنپور لکھنؤ ایکسپریس نامی ریلوے سے انگریزوں کا خزانہ لوٹ لیا۔
دس مجاہدین آزادی کے خلاف ریلوے کے سبھی جوانوں سے ان کا مقابلہ ہوا۔ اس واقعے کو کاکوری معاملہ سے پہچانے جانے لگا۔
اس مہم میں شامل چندر شیکھر آزاد کو پولیس پکڑ نہیں سکی۔ لیکن اشفاق اللہ خان، روشن سنگھ اور رام پرساد بسمل کو انگریزوں نے گرفتار کر لیا۔
کاکوری معاملہ کا اہم حصہ سمجھے جانے والے اشفاق اللہ خان نے اپنی نظموں سے مجاہدین آزادی کو تحریک دی
رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان کی دوستی تحریک آزادی کے دوران ہندو مسلم اتحاد کی علامت بن گئی۔
اشفاق، فیض پور جیل سے لکھے ہوئے اپنے آخری خط میں کہتے ہیں کہ بھارت کی تحریک آزادی کے لیے ہم نے اپنا کردار ادا کیا ہے، صحیح کیا یا غلط کیا۔ اس کا علم نہیں لیکن جو بھی کیا ہے وہ ملک کے لیے کیا ہے۔
میرے ساتھی چندر شیکھر باہر تھے، اگر وہ چاہتے تو پولیس پر گولیاں چلاتے لیکن کسی کا نقصان کرنا نہیں بلکہ آزادی حاصل کرنا ہمارا مقصد ہے۔
جاؤں گا خالی ہاتھ مگر درد ساتھ ہی جائے گا
جانے کس دن ہندوستاں آزاد وطن کہلائے گا
بسمل ہندو ہے کہتے ہیں پھر آؤں گا، پھر آؤں گا
پھر آ کر اے بھارت ماں تجھ کو آزاد کراؤں گا
جی کرتا ہے میں بھی کہہ دوں پر مذہب سے بندھ جاتا ہوں
میں مسلمان ہوں پنر جنم کی بات نہیں کر پاتا ہوں
ہاں خدا اگر مل گیا کہیں اپنی جھولی پھیلا دوں گا
اور جنت کے بدلے اس سے پنر جنم ہی مانگوں گا
آج کے روز 19 دسمبر 1927 کو اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل اور روشن سنگھ نے ملک کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔
بھارت کے ان عظیم بیٹوں کو پُر خلوص خراج عقیدت