علی گڑھ: اترپردیش میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سرسید اکاڈمی میں منعقدہ رسم کتاب اجرا کی تقریب میں وائس چانسلر طارق منصور نے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے پانچ مونوگراف/کتب کا اجرا کیا۔ اس موقعے پر وائس چانسلر طارق منصور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ تحریک کے اکابرین اور سرسید و ان کے رفقاء کی قربانیوں اور خدمات سے نوجوان نسل کو واقف ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ کتابیں بہت اہم ہیں جو نہ صرف دستاویزی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ نوجوانوں کو علی گڑھ تحریک سے واقف کرانے میں بھی بہت مددگار ثابت ہوں گی۔
وائس چانسلر نے اکیڈمی کے ذمہ داران اور مصنفین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرسید اکیڈمی کی علمی و تحقیقی سرگرمیوں اور اشاعتی سلسلے کو ان کا تعاون حسب سابق جاری رہے گا۔ سرسید اکیڈمی کی علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اور قومی امید ہے کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ڈاکٹر محمد شاہد (ڈپٹی ڈائریکٹر، سرسید اکیڈمی) نے تقریب کی نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کتابوں کا مختصر تعارف کرایا۔ انھوں نے سرسید اکاڈمی کی اشاعتی سرگرمیوں کا بھی مختصراً ذکر کیا.
سرسید اکیڈمی سے شائع شدہ پانچ جن کتابوں کا
اجراء کیا گیا ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں۔
1۔ سر سلطان محمد شاہ آغا خاں III (انگریزی)۔
2۔ سر راس مسعود (انگریزی)۔
3۔ مولودی ذکاء اللہ (اردو)۔
4۔ سر سید لیگیسی آف پلورلزم اینڈ کمپوزٹ کلچر (انگریزی)۔
5۔ جہانِ علی گڑھ (اردو)۔
انگریزی مونوگراف ’سر سلطان محمد شاہ آغا خاں III‘ (از ڈاکٹر صدف فرید) پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر نعیمہ گلریز (پرنسپل، ویمنس کالج) نے کہاکہ سر آغا خاں نے ایم اے او کالج کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہونے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انھوں نے حکومت کی طرف سے مطلوبہ تیس لاکھ روپئے جمع کرنے کے لئے پورے ملک کا دورہ کیا اور دو سال کی مدت میں یہ رقم جمع کرنے میں کامیاب رہے۔
انگریزی مونوگراف ’سر راس مسعود‘ (ترجمہ از اسد بن سادات) کے اوپر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر حکیم سید ظل الرحمٰن نے کہا کہ سرراس مسعود ایک نابغہ روزگار اور مقناطیسی شخصیت کے مالک انسان تھے۔ انھوں نے محض 47 سال کی عمر پائی مگر بڑے بڑے کام کئے۔ انھوں نے علم و ادب کی سرپرستی کی۔ علامہ اقبال ان کے گہرے دوست تھے۔سر راس مسعود اے ایم یو کے وائس چانسلر رہے، اس دوران انھوں نے یونیورسٹی میں نمایاں کام کئے۔ وہ انجمن ترقی اردو ہند کے بھی بارہ سال صدر رہے۔
یہ بھی پڑھیں:AMU Students Qualified PCS Exam اے ایم یو سے پہلی بار تین طلباء جموں و کشمیر پی سی ایس امتحان میں کامیاب
انگریزی تالیف ’سرسید لیگیسی آف پلورلزم اینڈ کمپوزٹ کلچر‘ (از ڈاکٹر راحت ابرار و شہ نور شان) پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر اے آر قدوائی نے کہا کہ سرسید کی تکثیریت کی روایت کا تحفظ و فروغ آج کی ضرورت ہے۔تکثیریت اور مشترکہ ثقافت سرسید کی میراث ہے۔ انھوں نے سبھی کمیونٹیز سے سماجی تعامل بڑھایا، اختلاف رائے سے نمٹنے کے لئے مہذب راستہ اختیار کیااور انٹرفیتھ ڈائیلاگ کو بڑھاوا دیا۔