کل جمعہ کی نماز کے بعد یونیورسٹی کے طلبا و طالبات یونیورسٹی ڈک پوائنٹ پر اکٹھا ہوکر طلبہ نے ملک کے آئین کے مطابق سی اے اے اور این ایل سی پر روشنی ڈالی، سبھی موجود طلبہ و طالبات نے پریمبل کو پہلے پڑھا پھر پھاڑا۔ سارے جہاں سے اچھا کے بعد قومی ترانہ بھی پڑا۔
احتجاج کے دوران دسویں جماعت کے طالب علم نے موجودہ ملک کے مسلمانوں کے حالات پر ایک نظم بھی پڑے جس کو اس نے خود لکھی۔
'مجھے جھکنا نہیں ظلم کے سامنے میں اجالوں میں پیدا ہوا
مجھ کو رہنا پڑے اندھیروں میں کیوں
ان اندھیروں میں جن کی سحر ہی نہیں
ظلم کی آگ میں مجھ کو جلنا پڑے
مجھ کو پِٹنا پڑے
مجھ کو مرنا پڑے کیوں'
ایک طالب علم نے سبھی طلبہ و طالبات سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، 'یہ بات ہم کو اچھے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک حملہ ہے اور یہ کئی طریقوں سے ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے ڈر ہے ہم جب بھی یہاں آرہے ہیں کیئ چیزوں کو ہر اکر آ رہے ہیں۔ جس میں سب سے پہلے ڈر رہے۔ کیوں کہ ہم صحیح ہیں ہم صحیح ہے یہ بات ہمارا ضمیر کہتا ہے۔ سب سے بڑی بات ہمارا پریمبل کہتا ہے۔ ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ ہم اس پریمبل کو پڑھیں جو ہمیں یہاں مسلمان رہنے کی طاقت پیدا کرتا ہے، یہاں ہندوستانی رہنے کی طاقت ادا کرتا ہے'۔
یونیورسٹی کی طالبہ سمیہ نے بتایا 'اس حکومت نے شروعات سے ہی مسلم اور اقلیت ان سب کے خلاف کچھ نہ کچھ غلط کیا۔ ہم یہاں پر اس کے خلاف بولنے آئے ہیں کیونکہ ہم ملک کے شہری ہیں اس ملک نے ہمیں بولنے کا حق ہے۔ اے ایم یو طالب علم ہے اور ہمیشہ کہا جاتا ہے اے ایم یو طلبا دہشت گرد ہے۔ ہم یہاں اکھٹا ہوئے ہیں پریمبل پڑھا اور یہ دکھانے کے لئے ہم بھی ملک کے شہری ہیں، دہشت گرد نہیں ہے ہم لوگ بھی باقی لوگوں کی طرح ہیں'۔
طالب علم حیدر عباس نے بتایا 'ہم سب نے جہاں پریمبل پڑھ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں ہم ملک کے آئین پر یقین رکھتے ہیں۔ آئین ہمارا مذہب ہے، ہم سیکولرزم پر یقین رکھتے ہیں، سیکولرزم کے لئے کھڑے ہیں۔ اور ہم حکومت کے امتیاز والے سی اے اے کو خارج کرتے ہیں کیونکہ یہ آئین کے خلاف ہے اس میں مذہب کو بنیاد بنایا گیا ہے'۔