عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تاریخی صد سالہ تقریبات کے موقع پر آئندہ 22 دسمبر کو ہونے والی آن لائن صدی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنے پر یونیورسٹی تدریسی و غیر تدریسی عملے نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کی جانب سے خاص اعلان کی امید کی، وہی یونیورسٹی کے طلبہ اور طلبا رہنما نے فی الحال کچھ بھی کہنے سے پرہیز کرتے نظر آئے۔
اے ایم یو شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ اختر نے حصوصی گفتگو میں بتایا کہ اے ایم یو انتظامیہ کا ایک اچھا قدم ہے، جو اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی جدوجہد اور کوشش سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے وزیراعظم کا 22 دسمبر کو آنا یقیناً اے ایم یو کے لیے، علیگ برادری کے لئے اور ملک کے مسلمانوں کے لئے ایک اچھا قدم ہے۔
وزیراعظم جب سے بنے ہیں ان کا اے ایم یو میں کسی بھی تقریب میں آنا نہیں ہوا، لیکن آج جب آرہے ہیں آن لائن ہی سہی تو ہم لوگوں میں جشن کا ماحول ہے۔
سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ اے ایم یو کو حکومت سے بحیثیت مرکزی ادارہ خوشگوار رہنا چاہیے تاکہ اس کا نظام ٹھیک طرح سے چل سکے۔ سیاسی فیصلے الگ ہوتے ہیں اور اداروں کے فیصلے الگ ہوتے ہیں، ہمیں سیاست کو اداروں سے دور رکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر محمد شاہد نے مزید کہا کہ "ہم وزیراعظم کو دعوت دے رہے ہیں نہ کہ نریندر مودی کو" یقینا بہت سے لوگوں کو ان کے خیالات سے پالیسی سے اختلاف ہیں لیکن مرکزی ادارے ہونے کی وجہ سے ہمیں پوری طرح منحصر رہنا پڑتا ہے تاکہ نظام چلتا رہے۔ ان شاء اللہ اس کا اچھا نتیجہ برآمد ہوگا خاص کر ان لوگوں کو دھکا لگا جو یونیورسٹی کے فضا کو ہر وقت خراب کرنا چاہتے ہیں، فرقہ وارانہ کے نام پر ان کا ایک زبردست دھکا اس دعوت سے لگے گا۔ یقیناً ہماری یونیورسٹی کے حالات آنے والے دنوں میں بہتر سے بہتر ہوں گے۔
مزید پڑھیں:
سو سال قبل 17 دسمبر 1920 کو اے ایم یو کا افتتاح عمل میں آیا تھا
ڈاکٹر محمد شاہد نے مزید امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جب وزیراعظم نے ہماری دعوت کو قبول کیا ہے تو وہ ضرور علانیہ فرمائیں گے اور اگر خالی یہی ہوجائے ہماری یونیورسٹی کے فنڈ وقت سے ملتے رہیں اور جو یونیورسٹی کے مراکز ہیں جن کو فنڈ کی کمی ہے اگر ان کو فنڈ کی فراہمی وقت سے ہونے لگے اور ریٹائرڈ لوگوں کی فنڈ کی فراہمی وقت سے ہو جائے تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔