علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے قیام کا سو سالہ جشن منا رہی ہے، لیکن کورونا وبا کے پیش نظر یہ جشن پھیکا نظر آرہا ہے کیونکہ سبھی پروگرام آن لائن کیے جا رہے ہیں۔
وہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اولڈ بوائز سرسید احمد خان کے مشن اور وژن کے ساتھ یونیورسٹی کے سوسالہ سفر پر گفتگو کرتے نظر آ رہے ہیں۔
اے ایم یو کے سینئر اولڈ بوائے ریٹائرڈ پروفیسر رضا اللہ خان نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ میں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1962 میں حاضر ہوا تھا۔ یہاں پرانی باتیں تو تاریخ میں صرف پڑھنے کی ہے لیکن پچھلے پچاس سال کا جو سفر ہے اور جس دوران میں علی گڑھ میں رہا اس وقت اور اب میں زمین - آسمان کا فرق ہے۔
یہاں کے تعلیم و تعلم کے معیار میں فرق ہوا ہے، تعلیم کے میدان میں یونیورسٹی پہلے پانچ میں آتی ہے اس کے علاوہ یہاں کا بنیادی ڈھانچہ پچھلے پچاس سالوں میں بہت تبدیل ہوا ہے۔ یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پڑھائی بہت کم خرچ میں ہوجاتی تھی جس کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے میں غریبوں کو بھی کسی بات کی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔
میں سمجھتا ہوں یونیورسٹی نے اپنے قایم ہونے کا مقصد تو پورا کیا لیکن سرسید احمد خان کا جو مشن تھا، تحریک تھی اس میں خاطر خواہ فرق نہیں ہوا۔
اے ایم یو کے سینئر اولڈ بوائے کا کہنا ہے اے ایم یو نے پچھلے سو سالوں میں جتنی تیزی سے ترقی کی ہے اور جو کامیابی حاصل کی اور یونیورسٹی بڑے بڑے بحران سے گزری لیکن اللہ کا شکر ہے یونیورسٹی کے مخلصین، یہاں کے اولڈ بوائز، یہاں کے اساتذہ نے یونیورسٹی کو ہر بحران سے آسانی سے بچا لیا۔
اے ایم یو کی خاص بات یہ ہے کہ علی گڑھ کا پڑھا ہوا خود ایک برادری بن کر پہچانا گیا، پوری دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں علی گڑھ کے لوگ نہ ہوں۔ خاص بات علی گڑھ کی یہ ہے کہ بھارت میں سیکولرزم اور سوشلزم تین جگہ زیادہ ملا ایک آئین میں دوسرا رہنماؤں کی زبان پر اور تیسرا علی گڑھ میں، جوہمیشہ عملی طور سے سیکولر رہا ہے۔
ہر مذہب، ہر برادری کے طبا ایک ہی کمرے میں رہ رہے ہیں یہ علی گڑھ کی نرالی شان ہے جو دوسرے تعلیمی اداروں میں کم ہی ملتی ہے۔ میں نے اے ایم یو میں 1952 میں داخلہ لیا تھا۔
مزید پڑھیں:
بنارس: سرکاری پائپ میں بسا ایک خانہ بدوش پریوار
وہیں علیگڑھ اولڈ بوائس ایسوسی ایشن کے نائب صدر ڈاکٹر اعظم میر کا کہنا ہے کہ اگر کمی دیکھنے کو ملتی ہے، سرسید احمد خان کے بعد جو ادارہ تھا اور جو اب ہم دیکھ رہے ہیں اس میں صرف اور صرف روایت کی کمی رہ گئی ہے۔ ہمارے والدین جہاں بھیجتے تھے کیوں کہ یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت سکھائی جاتی ہے اب ہمارے یہاں تعارف ختم ہوگیا سینئر اور جونیئر کے درمیان۔