الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم حکم میں کہا ہے کہ مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے والے بالغ جوڑوں کو تحفظ فراہم کرنے میں تبدیلی مذہب کوئی اہم عنصر نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ اگر زبردستی مذہب تبدیل کرنے کا الزام نہیں ہے تو پھر پولیس اور انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ ایسے جوڑے کو سیکیورٹی فراہم کرے۔
عدالت نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر دو بالغ افراد اپنی مرضی سے شادی کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں، تو ان کو ایک ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے، اگرچہ ان کے پاس شادی کا کوئی ثبوت نا ہو۔ پولیس افسر کو ایسے جوڑے کو ثبوت کے لئے مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ یہ حکم جسٹس سلیل کمار رائے نے دیا ہے۔
کیس کے حقائق کے مطابق 20 سالہ درخواست گزار نے 40 سالہ شخص سے 11 فروری 2021 کو مذہب کی تبدیلی کے بعد شادی کی۔ انہوں نے ایک درخواست دائر کی جس میں اہل خانہ کے افراد کو ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کا الزام عائد کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ ایسے معاملات میں قانونی حیثیت واضح ہے۔ دو بالغ مرد اور خواتین اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی ذات و مذہب سے ہوں۔
سپریم کورٹ نے لتا سنگھ کیس میں ایک واضح ہدایت دی ہے کہ جو بالغ افراد اپنی مرضی سے بین المذاہب یا بین ذات پات سے شادی کرتے ہیں ان کو کسی بھی طرح سے ہراساں یا دھمکی نہیں دی جانی چاہئے۔ ان کے ساتھ کوئی پرتشدد حرکت نہیں کی جانی چاہئے۔ نیز یہ پولیس اور انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔
عدالت نے کہا کہ پولیس اور انتظامی افسروں پر سپریم کورٹ کے اس حکم کی تعمیل لازمی ہے۔ اگر درخواست گزار کی زندگی اور آزادی واقعتا خطرے میں ہے تو اس سے متعلقہ ضلع کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس سے شکایت کرنی چاہئے اور پولیس اسے سیکیورٹی فراہم کرے۔