ETV Bharat / state

شادی شدہ یا غیر شادی شدہ بالغ جوڑوں کے ایک ساتھ رہنے سے متعلق عدالت نے کیا کہا؟ - ایسے معاملات میں قانونی حیثیت واضح ہے

الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ شادی شدہ یا غیر شادی شدہ بالغ جوڑوں کو ایک ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے۔ ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر زبردستی مذہب تبدیل نہیں ہوا ہے تو پولیس شادی شدہ جوڑے کو تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔ پولیس افسران کو ایسے جوڑے کو شادی کے لئے ثبوت دکھانے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے۔

allahabad high court
allahabad high court
author img

By

Published : Jun 13, 2021, 7:10 AM IST

الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم حکم میں کہا ہے کہ مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے والے بالغ جوڑوں کو تحفظ فراہم کرنے میں تبدیلی مذہب کوئی اہم عنصر نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ اگر زبردستی مذہب تبدیل کرنے کا الزام نہیں ہے تو پھر پولیس اور انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ ایسے جوڑے کو سیکیورٹی فراہم کرے۔

عدالت نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر دو بالغ افراد اپنی مرضی سے شادی کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں، تو ان کو ایک ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے، اگرچہ ان کے پاس شادی کا کوئی ثبوت نا ہو۔ پولیس افسر کو ایسے جوڑے کو ثبوت کے لئے مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ یہ حکم جسٹس سلیل کمار رائے نے دیا ہے۔

کیس کے حقائق کے مطابق 20 سالہ درخواست گزار نے 40 سالہ شخص سے 11 فروری 2021 کو مذہب کی تبدیلی کے بعد شادی کی۔ انہوں نے ایک درخواست دائر کی جس میں اہل خانہ کے افراد کو ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کا الزام عائد کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ ایسے معاملات میں قانونی حیثیت واضح ہے۔ دو بالغ مرد اور خواتین اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی ذات و مذہب سے ہوں۔

سپریم کورٹ نے لتا سنگھ کیس میں ایک واضح ہدایت دی ہے کہ جو بالغ افراد اپنی مرضی سے بین المذاہب یا بین ذات پات سے شادی کرتے ہیں ان کو کسی بھی طرح سے ہراساں یا دھمکی نہیں دی جانی چاہئے۔ ان کے ساتھ کوئی پرتشدد حرکت نہیں کی جانی چاہئے۔ نیز یہ پولیس اور انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔

عدالت نے کہا کہ پولیس اور انتظامی افسروں پر سپریم کورٹ کے اس حکم کی تعمیل لازمی ہے۔ اگر درخواست گزار کی زندگی اور آزادی واقعتا خطرے میں ہے تو اس سے متعلقہ ضلع کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس سے شکایت کرنی چاہئے اور پولیس اسے سیکیورٹی فراہم کرے۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم حکم میں کہا ہے کہ مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے والے بالغ جوڑوں کو تحفظ فراہم کرنے میں تبدیلی مذہب کوئی اہم عنصر نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ اگر زبردستی مذہب تبدیل کرنے کا الزام نہیں ہے تو پھر پولیس اور انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ ایسے جوڑے کو سیکیورٹی فراہم کرے۔

عدالت نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر دو بالغ افراد اپنی مرضی سے شادی کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں، تو ان کو ایک ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے، اگرچہ ان کے پاس شادی کا کوئی ثبوت نا ہو۔ پولیس افسر کو ایسے جوڑے کو ثبوت کے لئے مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ یہ حکم جسٹس سلیل کمار رائے نے دیا ہے۔

کیس کے حقائق کے مطابق 20 سالہ درخواست گزار نے 40 سالہ شخص سے 11 فروری 2021 کو مذہب کی تبدیلی کے بعد شادی کی۔ انہوں نے ایک درخواست دائر کی جس میں اہل خانہ کے افراد کو ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کا الزام عائد کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ ایسے معاملات میں قانونی حیثیت واضح ہے۔ دو بالغ مرد اور خواتین اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی ذات و مذہب سے ہوں۔

سپریم کورٹ نے لتا سنگھ کیس میں ایک واضح ہدایت دی ہے کہ جو بالغ افراد اپنی مرضی سے بین المذاہب یا بین ذات پات سے شادی کرتے ہیں ان کو کسی بھی طرح سے ہراساں یا دھمکی نہیں دی جانی چاہئے۔ ان کے ساتھ کوئی پرتشدد حرکت نہیں کی جانی چاہئے۔ نیز یہ پولیس اور انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔

عدالت نے کہا کہ پولیس اور انتظامی افسروں پر سپریم کورٹ کے اس حکم کی تعمیل لازمی ہے۔ اگر درخواست گزار کی زندگی اور آزادی واقعتا خطرے میں ہے تو اس سے متعلقہ ضلع کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس سے شکایت کرنی چاہئے اور پولیس اسے سیکیورٹی فراہم کرے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.