علی گڑھ: شیخ محمد عبداللہ کا شمار بھارت کی عظیم ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ملک کی تاریخ میں اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ پاپا میاں کے نام سے شہرت رکھنے والے شیخ عبداللہ ایک تحریک تھے۔ سر سید اور علی گڑھ تحریک سے متاثر ہو کر وہ علیگڑھ آئے اور علی گڑھ تحریک کا اہم ستون بن گئے۔ ان کا سب سے عظیم کارنامہ مسلمانان ہند کی خواتین میں تعلیم کی شمع روشن کرنا ہے۔
شیخ عبداللہ (پاپا میاں): شیخ عبداللہ کا سر سید احمد خان سے گہرا رشتہ تھا جو سرسید کے سچے جانشین تھے۔ شیخ عبداللہ پاپا میاں کی پیدائش جون 1874 اور ان کی وفات مارچ 1965 میں ہوئی۔ شیخ عبداللہ ایک بہت ہی عظیم شخصیت تھے، انہوں نے خواتین کی تعلیم کے لیے بہت نمایاں کام انجام دیے ہیں۔ شیخ عبداللہ نے 1891 میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج میں داخلہ لیا۔ 1895 میں بی اے اور 1899 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ویمنس کالج کے بانی اور یونیورسٹی کے خزانچی بھی رہے۔ شیخ عبداللہ کے نام سے طالبات کے لیے ایک عبداللہ ہال بھی موجود ہے۔
اے ایم یو ویمنس کالج کی پرنسپل پروفیسر نعیمہ خاتون نے بتایا کہ ملک کی آزادی کے بعد سے اے ایم یو ویمنس کالج مسلم خواتین کی تعلیم میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ سنہ 1911 میں شیخ عبداللہ نے سب سے پہلا بوڈنگ ہاؤس کھولا جو آج بھی وحیدیہ ہاسٹل کے نام سے موجود ہے۔
پروفیسر نعیمہ نے مزید بتایا ویمنس کالج اور طالبات کے لئے ہاسٹل قائم کرنے میں شیخ عبداللہ کو بیگم سلطان جہاں کی بھی مدد حاصل تھی۔ اے ایم یو ویمنس کالج شیخ عبداللہ کے خوابوں کی تعبیر ہے، جہاں آج تین ہزار سے زیادہ طالبات زیر تعلیم ہیں اور سات فیکلٹیاں ہیں۔ شمالی ہند میں خواتین کی تعلیم کے لئے معیاری تعلیم میں یہ اول کالج ہے۔ اے ایم یو ویمنس کالج کی طالبات مختلف میدانوں اپنے ادارے کا نام روشن کر رہی ہیں۔ NASA سے ISRO تک میں یہاں کی طالبات نمائندگی کر رہی ہیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر نعیمہ نے بتایا ویمنس کالج میں طالبات کے مطابق اساتذہ کی کمی ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کے مطابق بھی اساتذہ کی کمی ہے لیکن ہم کسی طرح انتظام کئے ہوئے ہیں۔ ویمنس کالج سے تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد تقریبا 33 ہزار تھی لیکن ہم ایک ہزار کو ہی داخلہ دے پائے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بڑی تعداد طالبات کی ہمارے یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔
ویمنس کالج کی سابق پرنسپل و سینیئر سابق طالبہ پروفیسر ذکیہ صدیقی نے بتایا کہ اس زمانے میں ہمارے والدین اس لئے ویمنس کالج تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا کرتے تھے کیونکہ یہ بہت عمدہ اور محفوظ تھا۔ جسے ہی یہاں سے تعلیم حاصل کرکے طالبات مختلف میدانوں میں اعلی عہدوں پر فائز ہوئی اور نام روشن کیا تو لوگوں کی سوچ بدلی۔ پہلے کے ویمنس کالج کے مقابلے آج بہت ترقی ہو چکی ہے، لوگ بدل رہے ہیں، ان کی سوچ بدلی رہی ہے لیکن پھر بھی خواتین کی تعلیم پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ذکیہ نے مزید کہا میں یہ سمجھتی ہوں کہ "ہم جیسی خواتین اس زمانے میں کبھی بھی تعلیم حاصل نہیں کر سکتی تھی اگر شیخ عبداللہ نہیں ہوتے"
ویمنس کالج کی طالبہ کا کہنا ہے کہ سر سید احمد خان اور شیخ عبداللہ کا بہت اہم رول ہے مسلم خواتین کی تعلیم میں کیوں کہ اس وقت کوئی بھی اس طرح کی سوچ نہیں رکھتا تھا خاص کر خواتین کی تعلیم کے لیے۔ انہیں خواتین کی تعلیم کے لئے مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑھا اور کہا جاتا تھا کہ بازاروں خواتین تعلیم حاصل کرتی ہیں اور اچھے گھروں کی خواتین گھر میں رہتی ہیں۔
اے ایم یو ویمنس کالج : شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں پہلا ادارہ 1906 میں قائم کیا۔ علی گڑھ شہر کے اپر فورٹ علاقے میں بالائے قلعہ کے نام سے، 1914 میں وہ ادارہ شفٹ ہوگیا میرس روڈ پر جہاں آج ویمنس کالج، اسکول اور عبداللہ ہال موجود ہے۔ شیخ عبداللہ عرف پاپا میاں کا پہلے یہ ادارہ پرائمری سطح پر تھا، پھر ترقی کر کے وہ ہائی سکول، انٹر میڈیٹ اور پھر کالج قائم ہوا۔ جو آج خواتین کی تعلیم (گریجویشن) کے لیے اتنا عظیم ادارہ بن گیا ہے کہ آج یہاں تقریباً 1000 سے بھی زیادہ لڑکیاں ہر سال آتی ہیں موجودہ وقت میں 50 سے زیادہ بیرونی ممالک کی لڑکیاں ہیں جو یہاں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں شیخ عبداللہ کے نام سے عبداللہ ہال بھی ہے اس ہال میں طالبات کی تربیت کا بھی بہترین انتظام ہے۔
یہ بھی پڑھیں : اے ایم یو ویمنس کالج اور اس کے بانی پاپا میاں