عالمی یوم یونانی ہر سال 11 فروری کو عظیم یونانی اسکالر اور سماجی مصلح حکیم اجمل خان کی یوم پیدائش کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ہندوستان میں طبی تعلیم کا درسگاہی نظام سنہ 1883 میں حکیم غلام محمود خان اور حکیم عبدالحمید خان کے مدرسہ طبیہ دہلی سے شروع ہوا جس کے قیام سے ایک تحریک پیدا ہوئی۔ اس سے ملک کے طول و عرض میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کوششوں کا آغاز ہوا۔
وہیں ریاست اترپردیش میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا اجمل خان طبیہ کالج ملک کا واحد ایسا ادارہ ہے، جس کا نام حکیم اجمل خاں کے نام سے منسوب ہے جس کا قیام 1927 میں ہوا۔عالمی یوم یونانی کے موقع پر اجمل خان طبیہ کالج کے پرنسپل پروفیسر سعود علی خان نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کی۔
پروفیسر سعود علی خان نے خصوصی گفتگو میں بتایا حکیم اجمل خان جدید یونانی سسٹم آف میڈیسن کے علمبردار کہے جاتے ہیں۔ قومی سطح پر یہ دہلی میں منایا جاتا ہے اس کے علاوہ تعلیمی ادارے اور غیر سرکاری تنظیم میں بھی اس دن کو بہت زور و شور سے منایا جاتا ہے۔
پروفیسر سعود نے مزید بتایا کہ یونانی سسٹم آف میڈیسن نہ صرف ہندوستان میں بلکہ برصغیر میں ایک متبادل سسٹم آف میڈیسن کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے پبلک ہیلتھ کے لیے۔ جہاں تک حکومت کی حمایت کا تعلق ہے تو صورتحال کافی خاطر خواہ نہیں ہے لیکن پہلے کی حکومت کے مقابلے اب یونانی سسٹم آف میڈیسن پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔اے ایم یو کا کالج واحد ایسا کالج ہے جو حکیم اجمل خان کے نام پر منسوب ہے جو ہندوستان کا دوسرا قدیمی ادارہ ہے لیکن تعلیم و تربیت اور دیگر انفرسٹرکچر کے تعلق سے یہ ہندوستان کا اول درجے کا ادارہ مانا جاتا ہے۔
پروفیسر سعود نے مزید بتایا کہ ہماری طرف سے تجویز تھی کہ ہمارے ادارے کو ایمس کا درجہ دیا جائے یا یونانی یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے، لیکن حکومت نے ابھی زیادہ مثبت اقدامات نہیں لئے ہیں۔
واضح رہے کہ یونانی طریقہ علاج مدرسہ طبیہ دہلی کی ان تحریکوں کے معاصر ہے، جو سرسید نے علوم جدیدہ اور مولانا قاسم نانوتوی نے دینی علوم کے لیے شروع کی تھی۔ مدرسہ طبیہ دہلی کے بعد لکھنؤ میں تکمیل الطب (1902) اور آلہ آباد میں الکایتہ الطبیہ (1904) اسی تحریک کی دین ہے، جو دہلی سے مدرسہ طبیہ کی شکل میں شروع ہوئی تھی۔طبی تعلیم کی درسگاہی نظام کے حوالے سے دہلی اور لکھنؤ کے تعلیمی اداروں کا ذکر اس لیے اہم ہے، کیونکہ دونوں مرکزیت کے حامل تھے اور ملک کے باقی علاقوں میں ان کے اسلوب کی تقلید ہو رہی تھی۔