ریاست اترپردیش کے شہر علیگڑھ میں شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں کے بعد علیگرھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں پانچ جنوری تک سرمائی تعطیلات کا اعلان کردیا گیا، اور زیادہ تر بچے گھر چلے گئے، لیکن اے ایم یو کے مقامی طلبہ و طالبات کا کہنا ہے کہ چھٹیوں کے بعد بھلے ہی طلبا گھر چلے گئے ہوں، لیکن ان کا شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج رکے گا نہیں بلکہ جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ اے ایم یو نے انتظامیہ نے کیا یہ بھی نہیں سوچا کہ آخر جو شمالی مشرق کے رہنے والے طلبا ہیں، کشمیری طلبا ہیں وہ کیسے جائیں گے، جبکہ ان کے علاقے میں حالات ناسازگار ہیں اور کچھ علاقوں میں کرفیوں نافذ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آخر انتظامیہ ان طلبا کو کیسے چھوڑ سکتی ہے، کیا انتظامیہ اس بات کا جواب دے گی؟
وہیں دوسری جانب اے ایم یو کے طلبہ اور ٹیچرز نے کہا کہ یونیورسٹی پانچ جنوری کو دوبارہ کھلنے کے بعد وائس چانسلر کو استعفیٰ دینا ہوگا، کیوں کہ 15 دسمبر کی رات جو بھی کچھ ہوا اس کا راست طور پر ذمہ دار صرف یونیورسٹی انتظامیہ ہے۔
یونیورسٹی کیمپس میں پولیس کی اجازت کے بعد یونیورسٹی کے پچاس سے زیادہ طلبہ زخمی ہوئے اور دو طلبہ کے ہاتھ پر آنسو گیس کے گولے پھٹنے کی وجہ سے ایک طالب علم کا ہاتھ بھی کاٹنا پڑا، تاہم ہسپتال میں زیر علاج ایک اور طالب علم کی حالت نازک بتائی جارہی ہے جس کو مزید علاج کے لیے دہلی بھیجا گیا۔
اے ایم یو طالبات کا کہنا ہے کہ 'ہم طلبہ کے پاس ہتھیار نہیں، اور نہ ہی ہم نے پولیس پر حملہ کیا، بلکہ پولیس ہی یہاں پر پڑھ رہے طلبا پر حملہ کیا، اتنا ہی نہیں ہاسٹل کے کمرے میں جاکر جو طلبہ سورہے تھے ان پر بھی پولیس نے حملہ کیا۔
یونیورسٹی کے ایک کشمیری طالبات نے کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کرتے ہوئے یونیورسٹی پراکٹوریل ٹیم پر الزام لگایا کہ خاتون پراکٹوریل ٹیم نے ہمیں ہاسٹل سے زبردستی باہر نکالا اور ہمارے ساتھ زور زبردستی بھی کی اور کہا کہ وائس چانسلر کا حکم ہے اس لیے آپ کو ہاسٹل خالی کرنا پڑے گا۔
وہیں دوسری جانب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ یونیورسٹی طلبہ، اساتذہ، والدین سمیت تمام علیگ برادری امن و امن بنائے رکھیں، کیوں کہ اب شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
وہیں دوسری جانب یونیورسٹی طلبہ، اساتذہ، والدین سمیت تمام علیگ برادری وائس چانسلر ڈاکٹر طارق منصور سے ناراض ہیں، اور ان سے استعفی کا مطالبہ کررہے ہیں۔