اترپردیش کے ضلع کشی نگر میں لو جہاد کے نام پر مسلم جوڑے کو شادی کے دوران اٹھا لے جانے اور ان کے ساتھ تشدد کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ کچھ ہندو وادی تنظیموں نے پولیس کو غلط خبر دی کہ لو جہاد کے نام پر شادی ہو رہی ہے، جسے پولیس نے روک دیا۔
یو پی کانگریس کمیٹی (اقلیتی) کے چیئرمین شاہنواز عالم نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ "حیدر علی اور شبیلا خاتون کی شادی ہو رہی تھی، جس پر ہندو یوا واہنی کے کارکنوں نے پولیس کو 'لو جہاد' کا معاملہ بتا کر شادی کو نہ صرف رکوا دیا بلکہ پولیس نے انہیں تھانے لے جاکر بیلٹ سے گھنٹوں پیٹا، جبکہ دونوں ہی مسلمان تھے۔"
شاہنواز عالم نے بتایا کہ ہم نے کشی نگر ایس پی ونود کمار سنگھ سے افواہ پھیلانے والے ہندو یوا واہنی کے کارکنان کے خلاف لا اینڈ آرڈر، لوگوں کے ذاتی معاملے میں رکاوٹ ڈالنے کی دفعات میں مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے علاقے کے سی او اور ہندو وادی تنظیم کے لوگوں کے ساتھ ملی بھگت کی جانچ کرانے اور انہیں فورا برخاست کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ شاہنواز عالم نے کہا کہ "وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ خود ہندو یوا واہنی کے سرغنہ ہیں۔"
قابل ذکر ہے کہ کشی نگر کے گورمیا گاؤں میں پولیس کو ہندو لڑکی کے نکاح کی غلط خبر دی گئی، جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے موقع پر قاضی اور دوسرے نوجوان سے پوچھ گچھ کی۔ اس کے بعد پولیس نے لڑکا لڑکی کو حوالات میں ڈال کر لڑکے کو بیلٹ سے مارا بھی۔
معلوم رہے کہ شبیلا خاتون اعظم گڑھ کے مبارک پور تھانہ حلقے کی رہنے والی اور لڑکا حیدر علی اہیرولی کا رہنے والا ہے۔ دونوں کے پریوار کو شادی سے کوئی اعتراض نہیں تھا، دونوں ہی بالغ ہیں۔ لیکن ہندو وادی تنظیم کے لوگوں نے پولیس کو غلط خبر دی کہ لو جہاد کے نام پر شادی ہو رہی ہے۔ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اعلی افسران افواہ پھیلانے والوں کے خلاف کیا کاروائی کرتے ہیں؟ یا ہندو ہونے کے ناطے انہیں چھوڑ دیتی ہے۔