مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کے لیے اترپردیش شیعہ مرکزی وقف بورڈ کی 86 بیگھہ زمین مفت میں لینے پر پہلے سے ایف آئی آر درج ہے جس کی تحقیقات رامپور اے ڈی ایم کر رہے ہیں۔
مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی معاملے کی وقف اراضی معاملے میں رامپور کی ٹیم شیعہ وقف بورڈ پہنچی ہے۔ دو رکنی ٹیم نے تقریباً چار گھنٹے کاغذات کھنگالے لیکن میڈیا سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے بتایا کہ امام الدین قریشی کے نام رامپور میں'دشمن کی جائداد' درج ہے، جس کے خلاف اعظم خاں پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
اسی مسئلے پر رامپور سے دو افسران شیعہ وقف بورڈ میں تحقیقات کے لیے آئے ہیں جس کا وہ پورا تعاون کر رہے ہیں۔
وسیم رضوی نے بتایا کہ جس زمین کے سلسلے میں اعظم خان پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے وہ ان کے چیئرمین شپ کے دوران میں وقف کے لیے درج نہیں تھی لہٰذا اس مسئلہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ زمین شیعہ وقف بورڈ میں کب اور کس سال اندراج ہوئی؟ لیکن وہ تحقیقات کے لیے آئے افسران کا پورا تعاون کر رہے ہیں۔علامہ ضمیر نقوی نے اعظم خان کے خلاف 19 اگست 2019 کو ایک ایف آئی آر درج کروائی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ اعظم خاں نے یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی اور شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی کے ذریعے 'سینگن کھیڑا' رامپور میں موجود 86 بیگھا زمین پہلے شیعہ وقف بورڈ میں اندراج کروایا اور بعد میں مسعود خان کو اس کا متولی بنا دیا گیا۔
اعظم خاں نے اس زمین کو جوہر یونیورسٹی کے لیے مفت میں حاصل کیا تھا جس کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ قابل ذکرہے کہ امام الدین قریشی آزادی سے قبل لکھنؤ میں رہتے تھے۔
اس کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور ان کی زمین 'دشمن کی جائداد' میں اندراج ہو گئی اگر تحقیقات میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اعظم خاں نے غلط طریقہ استعمال کرکے زمین حاصل کیا تھا تو ان کے خلاف کارروائی ہونا یقینی ہے۔
اس مسئلے پر شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی پر بھی کاروائی ہو سکتی ہے کیوں کہ انہوں نے ہی سال 2015 میں مسعود خان کو (جو سنی مسلمان ہیں) جائداد کا متولی بنایا جبکہ وہ جائداد شیعہ وقف بورڈ کے نام ہے۔