میرٹھ: میرٹھ میں واقع چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کی راجہ مہیندر پرتاپ لائبریری میں سو سال قدیم رامائن اور بھگوت گیتا کے نسخے حفاظت سے رکھے ہوئے ہیں۔ میرٹھ میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کی راجہ مہیندر پرتاپ لائبریری کے ڈپٹی لائبریرین پروفیسر جمال صدیقی نے قریب سو سال پہلے لکھی گئی اردو زبان میں رامائن اور بھگوت گیتا کو تلاش کرکے یونیورسٹی میں لائبریری کا حصہ بنایا ہے۔ یہ قدیم نسخے آج کے دور میں ملنا بہت مشکل ہے۔ ان دونوں نایاب کتابوں کو لائبریری کے رییر سیف میں رکھا گیا ہے تاکہ نئی نسل کے افراد ان کتابوں سے اپنی ریسرچ کے دوران استفادہ کر سکیں۔ ہندو مذہب میں رامائن اور بھگوت گیتا یا مہا بھارت کی کتابیں ہندی اور سنسکرت زبان میں تو آپ کو دیکھنے اور پڑھنے کے لیے آسانی سے دستیاب ہو جائیں گی۔ لیکن اردو زبان میں یہ کتابیں ملنا بہت مشکل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Photos Exhibition in Srinagar سری نگر میں کشمیر کی ایک صدی پرانی نایاب تصاویر کی نمائش
قریب سو سال پہلے اردو زبان میں لکھی گئی رامائن اور بھگوت گیتا ایسی ہی نایاب کتابیں ہیں جن کو میرٹھ میں چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے راجہ مہیندر پرتاپ لائبریری کے ڈپٹی لائبریرین پروفیسر جمال صدیقی صاحب نے تلاش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی لائبریری میں مختلف زبان اور مضامین کی قریب دس لاکھ سے زائد کتابیں دستیاب ہیں، جن سے یہاں کے طلباء فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اس لائبریری میں ایک خاص شعبہ مذہبی کتابوں کا بنایا گیا ہے۔ جہاں پر نایاب کتابوں کو رکھا گیا ہے۔ اس شعبہ میں رامائن اور بھگوت گیتا دو ایسی نایاب کتابیں ہیں جو قریب سو سال پہلے لکھی گئی تھی۔ جن میں رامائن پاکستان کے لاہور سے شائع ہوئی جب کہ بھگوت گیتا دہلی سے شائع ہوئی تھی۔ ان دونوں کتابوں کو پروفیسر صدیقی نے اپنی تلاش کے دوران فلم اداکار نصیر الدین شاہ کے رشتے کے بھائی ایڈووکیٹ مکرم علی شاہ کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران دیکھی۔ جس کے بعد انہوں نے ان دونوں کتابوں کو یونیورسٹی کو عطیہ کر دی۔
جمال صدیقی کا کہنا ہے کہ ان کتابوں کی حالت کافی بوسیدہ ہے جس کی وجہ سے طلباء کو نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے ان دونوں کتابوں کا ڈیجیٹلائجیشن کرا دیا گیا ہے تاکہ طلباء اس کا فائدہ اٹھاتے رہیں۔ ان کتابوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں اردو زبان کے ساتھ ہندی زبان کا بھی استعمال کیا گیا ہے تاکہ قارین کو سمجھنے میں دشواری نہ پیش آئے۔ اس کے علاوہ تصاویر کے ذریعہ بھی پورے واقعات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جمال صدیقی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کتابیں ملک کی کسی بھی یونیورسٹی میں آپ کو نہیں ملے گی۔ جن کو ہماری یونیورسٹی کے اس خاص شعبہ میں رکھا گیا ہے۔ اور آنے والی نسلوں کو نہ صرف مذہبی معلومات فراہم کرانے کا ذریعہ بنے گی بلکہ اردو زبان میں ہندو مذہب کے رشتے کو بھی زندہ رکھنے کا کام کرے گی۔