ETV Bharat / state

Babri Masjid Demolition Anniversary: آج بابری مسجد شہادت کی 29 ویں برسی

اترپردیش کے ایودھیا میں بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو ہندو شدت پسند تنظیموں اور کارسیوکوں نے منہدم کر دیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ بابری مسجد شہادت کی آج 29 ویں برسی ہے۔

بابری مسجد کی آج 29 ویں برسی
بابری مسجد کی آج 29 ویں برسی
author img

By

Published : Dec 6, 2021, 12:08 AM IST

Updated : Dec 6, 2021, 10:24 AM IST

بابری مسجد کا تنازع سب سے پہلے 1528 کے دوران منظر عام پر آیا تھا جس کے بعد کئی دہائیوں تک قانونی پیچیدگیوں اور زیرالتوا ثبوتوں کی وجہ سے یہ معاملہ عدالتوں میں زیر بحث رہا۔ اس دوران بابری مسجد کئی اہم واقعات کی گواہ رہی جبکہ چھ دسمبر 1992 کا وہ دن تھا، جس دن تاریخی بابری مسجد کو کارسیوکوں نے ڈھادیا تھا۔ تبھی سے ہر برس 6 دسمبر کو رام جنم بھومی کی حامی تنظیمیں ’شوریہ دیوس’ اور مسلم تنظیمیں ’یوم سیاہ‘ کے طور پر مناتے آرہے ہیں۔

اس معاملہ میں 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے 2.77 ایکڑ متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ 2010 میں ہندو اور مسلمان تنظیموں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دی تھیں جس کے بعد 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نو نومبر 2019 کو بابری مسجد۔رام مندر اراضی تنازع کیس کا فیصلہ رام للا کے حق میں سنایا اور متنازع اراضی پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کردیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع اراضی کو ہندو فریق رام للا کے حوالے کرنے کا فیصلہ جبکہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ مانا تھا کہ بابری مسجد کو مندر منہدم کرکے نہیں تعمیر کیا گیا تھا جبکہ وہاں مندر ہونے کا کوئی بھی ثبوت نہیں ملا ہے۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے 6 دسمبر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کو مجرمانہ حرکت قرار دیا۔

آپ کو بتا دیں کہ یہ تنازع 1528 میں شروع ہوا تھا جہاں بابری مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ ہندوؤن کا ماننا ہے کہ وہ مقام رام جنم بھومی ہے۔ بابری مسجد۔رام مندر کا یہ کیس کئی دہائیوں تک چلا اور آخر کار فیصلہ رام مندر کی تعمیر کے حق میں اور مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا عدالت نے سنایا۔

بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بی جے پی کے رہنما اور کارسیوکوں کو بھی سی بی آئی کی عدالت نے بری کردیا، اس معاملے میں ملزم ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کیس: 1528 تا 2017 کے درمیان کیا ہوا؟

سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد 5 اگست 2020 کو ایودھیا میں ایک شاندار تقریب منعقد کرکے رام مندر تعمیر کے لیے بھومی پوجا کی گئی جس میں خود وزیراعظم نریندر مودی نے شرکت کی تھی اور 40 کلو چاندی کی اینٹ سے مندر کی بنیاد رکھی۔

بابری مسجد کا تنازع سب سے پہلے 1528 کے دوران منظر عام پر آیا تھا جس کے بعد کئی دہائیوں تک قانونی پیچیدگیوں اور زیرالتوا ثبوتوں کی وجہ سے یہ معاملہ عدالتوں میں زیر بحث رہا۔ اس دوران بابری مسجد کئی اہم واقعات کی گواہ رہی جبکہ چھ دسمبر 1992 کا وہ دن تھا، جس دن تاریخی بابری مسجد کو کارسیوکوں نے ڈھادیا تھا۔ تبھی سے ہر برس 6 دسمبر کو رام جنم بھومی کی حامی تنظیمیں ’شوریہ دیوس’ اور مسلم تنظیمیں ’یوم سیاہ‘ کے طور پر مناتے آرہے ہیں۔

اس معاملہ میں 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے 2.77 ایکڑ متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ 2010 میں ہندو اور مسلمان تنظیموں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دی تھیں جس کے بعد 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نو نومبر 2019 کو بابری مسجد۔رام مندر اراضی تنازع کیس کا فیصلہ رام للا کے حق میں سنایا اور متنازع اراضی پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کردیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع اراضی کو ہندو فریق رام للا کے حوالے کرنے کا فیصلہ جبکہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ مانا تھا کہ بابری مسجد کو مندر منہدم کرکے نہیں تعمیر کیا گیا تھا جبکہ وہاں مندر ہونے کا کوئی بھی ثبوت نہیں ملا ہے۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے 6 دسمبر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کو مجرمانہ حرکت قرار دیا۔

آپ کو بتا دیں کہ یہ تنازع 1528 میں شروع ہوا تھا جہاں بابری مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ ہندوؤن کا ماننا ہے کہ وہ مقام رام جنم بھومی ہے۔ بابری مسجد۔رام مندر کا یہ کیس کئی دہائیوں تک چلا اور آخر کار فیصلہ رام مندر کی تعمیر کے حق میں اور مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا عدالت نے سنایا۔

بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بی جے پی کے رہنما اور کارسیوکوں کو بھی سی بی آئی کی عدالت نے بری کردیا، اس معاملے میں ملزم ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت تمام 32 ملزمان کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کیس: 1528 تا 2017 کے درمیان کیا ہوا؟

سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد 5 اگست 2020 کو ایودھیا میں ایک شاندار تقریب منعقد کرکے رام مندر تعمیر کے لیے بھومی پوجا کی گئی جس میں خود وزیراعظم نریندر مودی نے شرکت کی تھی اور 40 کلو چاندی کی اینٹ سے مندر کی بنیاد رکھی۔

Last Updated : Dec 6, 2021, 10:24 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.