ETV Bharat / state

شہنائی کے بے تاج بادشاہ، بسم اللہ خان کی برسی

21 اگست 2006 کو بھارت رتن شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان نے دنیا کو الوداع کہ دیا تھا جس سے موسیقی کی دنیا میں سوگ کی لہر دوڑ گئی تھی، آج استاد بسم اللہ خان کی 14 ویں برسی منائی جارہی ہے اور مرحوم بسم اللہ خان کو شدت سے یاد کیا جا رہا ہے۔

14th death anniversarry of bismillah khan
بسم اللہ خان کی برسی
author img

By

Published : Aug 21, 2020, 5:03 PM IST

شہنائی نواز بسم اللہ خان کی پیدائش 21 مارچ 1916 کو ریاست بہار کے بکسر ضلع کے ڈمراں گاؤں میں ہوئی تھی اور 21 اگست 2006 کو بنارس میں انتقال ہوا۔

دیکھیں ویڈیو

بسم اللہ خان ابتدائی عمر میں اپنے چچا علی بخش کے پاس بنارس آ گئے تھے اور ان سے شہنائی بجانے کا ہنر سیکھا۔

استاد بسم اللہ خان بنارس کے بالاجی مندر میں برسوں تک شہنائی نواز رہے۔ بنارس کے مزاج کو اپنی روح میں جذب کر لینے والے استاد بسم اللہ خان نے اپنی پوری زندگی شہنائی اور اس کی موسیقی میں کھپا دی۔ اور اپنے اس منفرد فن کے ذریعہ اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کی اور ملک کا اعلی ترین شہری ایوارڈ بھارت رتن سے بھی نوازے گئے۔

بسم اللہ خان نے سنہ 1947 میں لال قلعے پر شہنائی بجا کر آزادی کا استقبال کیا تھا، تبھی پنڈت جواہر لعل نہرو نے انہیں استاد کہا تھا۔

14th death anniversarry of bismillah khan
بسم اللہ خان کا مزار

اسی وقت سے بسم اللہ خان کو استاد بسم اللہ خان کہا جانے لگا۔ بسم اللہ خان کو ایام عزا میں درگاہ فاطمان سے کافی لگاؤ تھا۔

بسم اللہ خان عزاداری کے ایام میں بنارس کے درگاہ فاطمان میں شہنائی بجاتے تھے اور امام حسین سے بے حد محبت کرتے تھے۔ محرم کے ایام میں خان صاحب چپل نہیں پہنتے تھے۔

درگاہ فاطمان میں ایک کنویں کے قریب چٹائی بچھا کر شہنائی بجاتے تھے اور محرم کے جلوس میں شرکت کرتے تھے۔

بسم اللہ خان جس مقام پر بیٹھ کر شہنائی بجاتے تھے، اسی جگہ پر آج وہ مدفون ہیں۔

حالیہ دنوں میں استاد بسم اللہ خان جس کمرے میں بیٹھ کر شہنائی کا ریاض کیا کرتے تھے، اس کو منہدم کرنے کی کوشش کی گئی اور پورے گھر کو کمرشیل بلڈنگ بنانے کا منصوبہ تھا لیکن ان کے اہل خانہ کے کچھ افراد اور موسیقی کے میدان سے وابستہ لوگوں کی مخالفت پر بنارس ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ایکشن لیتے ہوئے گھر کی انہدامی کاروائی پر روک لگا دی۔

14th death anniversarry of bismillah khan
بسم اللہ خان کی 14 ویں برسی

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بسم اللہ خان کے پوتے آفاق نے کہا کہ 'گھر میں بے روزگاری ہے، ذریعۂ معاش نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل خانہ کا مطالبہ ہے کہ حکومت سامنے آئے اور گھر والوں سے بات کرے تاکہ استاد بسم اللہ خان کی یادوں کو ایک میوزیم کی شکل میں تبدیل کیا جا سکے اور گھر کا معاوضہ دے تاکہ اہل خانہ کو بھی پریشانی نہ ہو۔'

مزید پڑھیں:

بھارت رتن استاد بسم اللہ خان کا مکان گھریلو تنازعات کا شکار

انہوں نے کہا کہ 'استاد بسم اللہ خان بین الاقوامی شہرت یافتہ تھے۔ ان کی یادوں کو محفوظ رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت ان کی یادوں کو محفوظ رکھے اور گھروالوں کو خاطر خواہ معاوضہ ادا کرے۔'

شہنائی نواز بسم اللہ خان کی پیدائش 21 مارچ 1916 کو ریاست بہار کے بکسر ضلع کے ڈمراں گاؤں میں ہوئی تھی اور 21 اگست 2006 کو بنارس میں انتقال ہوا۔

دیکھیں ویڈیو

بسم اللہ خان ابتدائی عمر میں اپنے چچا علی بخش کے پاس بنارس آ گئے تھے اور ان سے شہنائی بجانے کا ہنر سیکھا۔

استاد بسم اللہ خان بنارس کے بالاجی مندر میں برسوں تک شہنائی نواز رہے۔ بنارس کے مزاج کو اپنی روح میں جذب کر لینے والے استاد بسم اللہ خان نے اپنی پوری زندگی شہنائی اور اس کی موسیقی میں کھپا دی۔ اور اپنے اس منفرد فن کے ذریعہ اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کی اور ملک کا اعلی ترین شہری ایوارڈ بھارت رتن سے بھی نوازے گئے۔

بسم اللہ خان نے سنہ 1947 میں لال قلعے پر شہنائی بجا کر آزادی کا استقبال کیا تھا، تبھی پنڈت جواہر لعل نہرو نے انہیں استاد کہا تھا۔

14th death anniversarry of bismillah khan
بسم اللہ خان کا مزار

اسی وقت سے بسم اللہ خان کو استاد بسم اللہ خان کہا جانے لگا۔ بسم اللہ خان کو ایام عزا میں درگاہ فاطمان سے کافی لگاؤ تھا۔

بسم اللہ خان عزاداری کے ایام میں بنارس کے درگاہ فاطمان میں شہنائی بجاتے تھے اور امام حسین سے بے حد محبت کرتے تھے۔ محرم کے ایام میں خان صاحب چپل نہیں پہنتے تھے۔

درگاہ فاطمان میں ایک کنویں کے قریب چٹائی بچھا کر شہنائی بجاتے تھے اور محرم کے جلوس میں شرکت کرتے تھے۔

بسم اللہ خان جس مقام پر بیٹھ کر شہنائی بجاتے تھے، اسی جگہ پر آج وہ مدفون ہیں۔

حالیہ دنوں میں استاد بسم اللہ خان جس کمرے میں بیٹھ کر شہنائی کا ریاض کیا کرتے تھے، اس کو منہدم کرنے کی کوشش کی گئی اور پورے گھر کو کمرشیل بلڈنگ بنانے کا منصوبہ تھا لیکن ان کے اہل خانہ کے کچھ افراد اور موسیقی کے میدان سے وابستہ لوگوں کی مخالفت پر بنارس ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ایکشن لیتے ہوئے گھر کی انہدامی کاروائی پر روک لگا دی۔

14th death anniversarry of bismillah khan
بسم اللہ خان کی 14 ویں برسی

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بسم اللہ خان کے پوتے آفاق نے کہا کہ 'گھر میں بے روزگاری ہے، ذریعۂ معاش نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل خانہ کا مطالبہ ہے کہ حکومت سامنے آئے اور گھر والوں سے بات کرے تاکہ استاد بسم اللہ خان کی یادوں کو ایک میوزیم کی شکل میں تبدیل کیا جا سکے اور گھر کا معاوضہ دے تاکہ اہل خانہ کو بھی پریشانی نہ ہو۔'

مزید پڑھیں:

بھارت رتن استاد بسم اللہ خان کا مکان گھریلو تنازعات کا شکار

انہوں نے کہا کہ 'استاد بسم اللہ خان بین الاقوامی شہرت یافتہ تھے۔ ان کی یادوں کو محفوظ رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت ان کی یادوں کو محفوظ رکھے اور گھروالوں کو خاطر خواہ معاوضہ ادا کرے۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.