عثمان ساگر میں 17. 700 فٹ پانی کی کمی پائی جاتی ہے۔ اس ذخیرہ آب کی جملہ گنجائش 1790. 00 فٹ ہے۔ تا حال اس ذخیرہ آب میں صرف 1772.300 فٹ پانی جمع ہوا ہے۔
28 ستمبر 1908 میں آنے والے ہولناک طوفان سے تقریباً 15 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس ہلاکت خیزی سے شہر حیدرآباد تباہ و تاراج ہوگیا تھا۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حیدرآباد کے ساتویں نظام صابر میر عثمان علی خاں بہادر نے 1920ء میں عثمان ساگر اور حمایت ساگر تعمیر کروایا تھا۔
عثمان ساگر 46 کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ عثمان ساگر کی تعمیر کو 100 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ عثمان ساگر اور حمایت ساگر کا ذخیرہ آب سے ہی صاف و شفاف پانی شہر حیدرآباد کو فراہم کیا جاتا تھا۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ عثمان ساگر کے اطراف و اکناف میں بڑے پیمانے پر بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کروائی جا رہی ہے۔ اس کام کے لئے بورویل ڈالے جا رہے ہیں اور تالاب کے پانی کو روک کر تعمیری کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں:
اردو یونیوسٹی میں 'گاندھی جی: شخصیت و خدمات' پر پروگرام
اس کے اطراف میں کھیتوں کا طویل سلسلہ ہے۔ کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے اسی پانی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے نالوں کے ذریعے اس کا پانی کھیتوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔