اس مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ مشہور ہے کہ جب اس مسجد کی بنیاد کا پتھر رکھنے کا وقت آیا تو شاہی نقیب نے علماء کرام کو دعوت دے کر فرمایا کہ یہاں موجود افراد میں سے وہ فرد آگے بڑھے، جس شخص کی بارہ سال کی عمر سے فجر کی نماز قضا نہ ہوئی ہو، وہ شخص اس مسجد کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھے، لیکن حاضرین میں سے کوئی سامنے نہ آیا اس پر بادشاہ محمد قطب شاہ آگے بڑھے اور اللہ کی قسم کھا کر اعلان کیا کہ 12 برس کی عمر سے اس وقت تک میری کوئی نماز قضاء نہیں ہوئی اور میری تہجد کی نماز بھی قضاء نہیں ہوئی ہے۔
محمد قلی قطب شاہ نے اپنے ہاتھ سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھ کر مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا، مسجد کی تعمیر کے وقت مکہ مکرمہ سے ایک پتھر منگوا گیا تھا، جس کے نام سے منسوب کرکے اس مسجد کا نام مکہ مسجد رکھا گیا۔
اس پتھر کو اس تعمیر میں لگوایا گیا، جو مسجد کے پچھلے حصے میں اب بھی موجود ہے۔
مسجد کے تعمیری کام میں آٹھ ہزار مزدور 77برس تک لگاتار لگے رہے۔ ابوالحسن قطب شاہ سامن کے عہد تک اس کی تعمیر کا سلسلہ بصرفہ آٹھ لاکھ روپیہ جاری رہا اور شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں اس کی تعمیر اختتام کو پہنچی۔
اس مسجد کی عمارت 225 فٹ طویل 180فٹ چوڑی ہے اور اونچائی 75 فٹ ہے۔ بیرونی احاطہ مستطیل وضع کا ہے، جس کا چبوترہ 360 مربع فٹ ہے۔
مسجد کے احاطے میں وضو کے لئے دو الگ عمارتیں بنائی گئی ہیں اور اس کے علاوہ وہ سنگ سیاہ کے تخت بھی موجود ہے، جس پر عوام آج بھی بیٹھا کرتی ہے۔ مسجد کے دائیں جانب آصف جاہ مقبرہ ہے، جس میں آصف جاہ حکمرانوں کے مقبرے موجود ہیں، جس میں ششم نظام محبوب علی خاں بہادر کی مزار بھی موجود ہے۔
کئی برس سے اس مسجد کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی تھی، مسجد کی چھت میں دراڑ پڑ گئی تھی اور اندر پانی داخل ہو رہا تھا، حالت خستہ ہو چکی تھی۔
محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے چھ کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر و مرمت کا کام پچھلے ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔اس کام کے لیے راجستھان اور دیگر ریاستوں سے مزدور منگوائے گئے ہیں، مسجد کے اندرونی حصے میں دو کمانوں کا کام مکمل ہوچکا ہے۔ اسی کے ساتھ مکہ مسجد کے دروازے کا کام بھی جاری ہے، کام دو سال میں مکمل ہوگا۔
مسجد کے احاطے میں ایک مدرسہ بھی ہے، جائے نماز 15 برس سے تبدیل نہیں کیے گئے۔ جائے نماز بھی جگہ۔ جگہ سے پھٹ چکا ہے۔ اس کی بھی تبدیلی ضروری محسوس ہورہی ہے۔
قدیم وضو ہاؤس جس میں گندگی ڈالی جارہی ہے، اسے بھی صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ اب دیکھتے ہیں حکومت تلنگانہ مسجد کی تزئین کاری میں کتنا کامیاب ہوتی ہے۔