نظام دکن شوگر لمیٹیڈ (این ڈی ایس ایل ) کے ملازمین نے بودھن شہر میں فیکٹری کو بند کرنے پر احتجاج کیا۔
ملازمین کا ریاستی حکومت سے مطالبہ ہے کہ نیشنل کمپنی لاء ٹریبیونل (این سی ایل ٹی ) کے حکم کو منسوخ کرئے یا ان کے لیے متبادل تلاش کیاجائے اور ان کی تنخواہ کے معاملے کو حل کیا جائے۔
حال ہی میں این سی ایل ٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ این ڈی ایس ایل کو بند کردے گی۔سرمایہ کاروں نے اپنے پیسے واپس لے لیے تھے اور ریاستی حکومت دوسرا متبادل تلاش کرنے میں ناکام ہے۔
ریاستی حکومت تلنگانہ راشٹر سمیٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایک دوسرے پر الزام عائد کرکے اسے سیاسی رنگ دے دیا ہے۔
خیال رہے کہ این ڈی ایس ایل کی بنیاد حیدر آباد کے نظام سابع کے دور حکومت میں 1937 میں رکھی گئی تھی اور یہ ایشیاء کی سب سے بڑی چینی مل تھی۔اس فیکٹری نے بہت سے لوگوں کو روزگار دیا۔
سنہ 2002 میں ٹی ڈی پی کی حکومت نے کمپنی کے خسارے میں چلنے کی وجہ سے اسے نجی کمپنی کے سپرد کردیا تھااور کمپنی کی زمینوں کو غریبوں میں تقسیم کردیاتھا۔
اس وقت کمپنی کے تین ملوں میں 264 ملازمین کام کررہے ہیں۔گزشتہ تین سال سے انہیں تنخواہ نہیں دی گئی ہے اور ان کا مقدمہ لیبر کورٹ میں زیر التواء ہے۔
نظام چینی مل بند ہو جائے گی؟
نظام دکن شوگر لمیٹیڈ کی بنیاد سنہ 1937 میں رکھی گئی تھی اور یہ ایشیاء کی سب سے بڑی چینی مل تھی۔
نظام دکن شوگر لمیٹیڈ (این ڈی ایس ایل ) کے ملازمین نے بودھن شہر میں فیکٹری کو بند کرنے پر احتجاج کیا۔
ملازمین کا ریاستی حکومت سے مطالبہ ہے کہ نیشنل کمپنی لاء ٹریبیونل (این سی ایل ٹی ) کے حکم کو منسوخ کرئے یا ان کے لیے متبادل تلاش کیاجائے اور ان کی تنخواہ کے معاملے کو حل کیا جائے۔
حال ہی میں این سی ایل ٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ این ڈی ایس ایل کو بند کردے گی۔سرمایہ کاروں نے اپنے پیسے واپس لے لیے تھے اور ریاستی حکومت دوسرا متبادل تلاش کرنے میں ناکام ہے۔
ریاستی حکومت تلنگانہ راشٹر سمیٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایک دوسرے پر الزام عائد کرکے اسے سیاسی رنگ دے دیا ہے۔
خیال رہے کہ این ڈی ایس ایل کی بنیاد حیدر آباد کے نظام سابع کے دور حکومت میں 1937 میں رکھی گئی تھی اور یہ ایشیاء کی سب سے بڑی چینی مل تھی۔اس فیکٹری نے بہت سے لوگوں کو روزگار دیا۔
سنہ 2002 میں ٹی ڈی پی کی حکومت نے کمپنی کے خسارے میں چلنے کی وجہ سے اسے نجی کمپنی کے سپرد کردیا تھااور کمپنی کی زمینوں کو غریبوں میں تقسیم کردیاتھا۔
اس وقت کمپنی کے تین ملوں میں 264 ملازمین کام کررہے ہیں۔گزشتہ تین سال سے انہیں تنخواہ نہیں دی گئی ہے اور ان کا مقدمہ لیبر کورٹ میں زیر التواء ہے۔