مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پریس نوٹ کے مطابق16 اگست بروز اتوار کو دارالعلوم حیدرآباد میں جسٹس شاہ محمد قادری کے زیر صدارت شہر میں موجود ارکان بورڈ ‘ ممتاز علماء مشائخ اور ملی تنظیموں کے ذمہ داروں کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں سکریٹریٹ میں شہید کی گئی دو مسجدوں (مسجد ہاشمی اور مسجد دفاتر معتمدی) کے انہدام کے مسئلہ پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ بہ اتفاق رائے مسجد کے انہدام پر اور اسی مقام پر دوبارہ مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں حکومت کی سردمہری پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور بہ اتفاق رائے درج ذیل تجاویز منظور کیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں کو اللہ کا گھر قرار دیا ہے۔ اسی لئے تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زمین کا جو حصہ ایک بار مسجد کے لئے وقف کر دیا جائے اور اس پرنماز ادا کرلی جائے وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہے ۔ نہ اس پر وقف کرنے والے کی ملکیت باقی رہتی ہے اور نہ وقف کے منتظم کو اس کی حیثیت بدلنے کا اختیار ہے ۔ فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر مسجد میں نماز کا سلسلہ موقوف ہوگیا اور ارد و گرد کی آبادی ختم ہوگئی ہو فی الحال اس مسجد کی ضرورت باقی نہیں ۔ تب بھی وہ مسجد باقی رہے گی اور قیامت تک اس کی یہی حیثیت قائم رہے گی ۔ اس لئے نہ وقف کرنے والے کو مسجد کی حیثیت بدلنے کا اختیار نہ وقف بورڈ کو اور نہ حکومت کو ۔ لہذا تلنگانہ کے لئے سکریٹریٹ کی تعمیر کے دوران دو مسجدوں (مسجد دفاتر معتمدی اور مسجد ہاشمی) کی شہادت مسلمانوں کے ساتھ کھلا ہوا ظلم ‘ قانون و آئین کی پامالی اور جمہوریت کا قتل ہے ۔
اس لئے (1) حکومت تلنگانہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ فوری طور پر جس جگہ پہلے مسجد تھی‘اسی جگہ دوبارہ تعمیر کے لئے حکم جاری کرے اور مسلمانوں کو زمین حوالہ کر دے ۔ انشاء اللہ مسلمان خود اپنے اخراجات سے مسجد تعمیر کرلیں گے ۔ (2) یہ بات مسلمانوں کے لئے سخت رنج اور صدمہ کا باعث ہے کہ نئے سکریٹریٹ کا جو نقشہ حکومت نے بنایا ہے وہاں سابقہ جگہ کے بجائے دوسری جگہ مسجد کی تعمیر کا پلان بنایا گیا ۔ اس سے ہرگز مسلمانوں کے مطالبہ کی تکمیل نہیں ہوتی ‘ اس لئے ضروری ہے کہ سابقہ جگہ پرہی دوبارہ مسجد تعمیر کی جائے کسی اور جگہ پر متبادل مسجد تعمیر کرنا کافی نہیں ہے ۔ (3) یہ اجلاس وقف بورڈ کو بھی متنبہ کرتا ہے کہ اسے مسجد کی زمین سے دست بردار ہونے یا دوسری جگہ متبادل قبول کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس کا کام مسجد کو بچانا ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ مسجد کی شرعی حیثیت کو تبدیل کرنا ۔ چنانچہ فقہاء اسلام نے لکھا ہے کہ اگر عدالت بھی خاص مسجد کی زمین بیچنے کی اجازت دے دیں تو اس اجازت کا اعتبار نہیں ہے ‘ چاہئے وہ مسجد ویران اور غیر آباد ہی کیوں نہ ہوگئی ہو۔ (4) اجلاس کا احساس ہے کہ ان مسجدوں کے تحفظ کے سلسلہ میں وقف بورڈ نے بھی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی ۔ اس کو فوری طور پر حکومت سے نمائندگی کر کے اسی جگہ پر دوبارہ مسجد تعمیر کرانی چاہئے ۔ (5) عوام میں یہ بات گشت کر رہی ہے کہ وقف بورڈ کے ایک رکن نے ہائیکورٹ میں مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں درخواست دائر کی اور جب سرکاری نمائندہ نے بیان دیا کہ حکومت نے نقشہ میں مسجد کی گنجائش رکھی ہے تو انہوں نے اپنی درخواست واپس لے لی ۔ گویا مسجد کی اصل جگہ پر تعمیر کرنے کے بجائے متبادل جگہ پر مسجد کی تعمیر کو انہوں نے قبول کرلیا ۔ ان کا یہ عمل شرعاً غلط اور ناقابل قبول ہے ۔
(6) حکومت اگر اس سلسلہ میں دو ہفتہ کے اندر کوئی قابل اطمینان قدم نہیں اٹھاتی ہے تو مسلمان پوری ریاست میں قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے پرامن احتجاج شروع کردیں گے ۔ (7) عوامی احتجاج کے علاوہ قانونی طور پر حکومت کے اس نامنصفانہ اقدام کو روکنے کے لئے جو کوششیں ہوسکتی ہے۔ ریاست کے مسلمانوں کی تمام تنظیمیں اور اہم شخصیتیں مل کر پوری قوت کے ساتھ ان کو انجام دیں گی۔