مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے کہا کہ جسٹس ٹی وی نالا واڈے اور جسٹس ایم جی سیولکر کی بنچ کا فیصلہ ایک ایسا صاف شفاف آئینہ ہے جس میں مرکزی وریاستی حکومتیں اپنا داغدار چہرہ دیکھ سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں جن نکات پر روشنی ڈالی ہے ان سے فرقہ پرستی اور فاشزم کو مایوسی اور شکست ہوئی ہے اور انصاف کے طلب گاروں کو فتح ملی ہے۔یہ قابل اطمینان ہے کہ عدالت نے حکومت اور میڈیا کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے تبلیغی جماعت کے کارکنان پر لگائے گئے سارے الزامات کو خارج کردیا ہے اور حکومت سے پوچھا ہے کہ کیا ہم نے مہمانوں سے اپنی عظیم روایت اور وراثت کے مطابق سلوک کیا ہے؟ کووِڈ۔19 کی پیدا شدہ صورت حال میں ہمیں اپنے مہمانوں کے تئیں زیادہ حساس اور زیادہ قابل رحم ہو نا چاہیے، لیکن ہم نے ان کی مدد کرنے کے بجائے ان کو جیلوں کے اندر بندکردیا اور ان پر سفری قانون کی خلاف ورزی اور بیماری پھیلانے کا الزام ٹھونک دیا۔
مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے کہا کہ فیصلے میں عدالت نے ان امور کے ذریعہ نہ صرف حکومتوں کو جگانے کا کام کیا ہے بلکہ ملک کے وقار، اس کے آئین، اس کی عظمت اور عظیم روایات کے تئیں اس کے غیر ذمہ دار انہ رویے پر اسے خبر دار بھی کیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو اپنی خامیوں کی اصلاح کی دعوت دی ہے جو خیر مقدم کے لائق ہے۔ اس کے پس منظر میں ریاستی جمعیتہ علماء تلنگانہ وآندھراپردیش تلنگانہ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ تبلیغی جماعت کے خلاف ریاست میں جہاں بھی مقدمہ دائر ہے، اس کو خارج کیا جائے اور جو پاسپورٹ ظبت ہے وہ بلاتاخیر واپس دیا جائے کیونکہ یہ لوگ ہمارے مہمان ہیں ان کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرنا چاہے۔
انہوں نے کہا کہ جمعیتہ علماء ہند نے ہمیشہ ملک کے آئین کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کی ہے، وہ کسی بھی مظلوم پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ جب تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آیا، تب سے آج تک جمعیتہ علماء سیاسی، سماجی اورقانونی ہر محاذ پر ان کی مدد کرتی رہے اور ان شاء اللہ کرتی رہے گی۔