اس خاندان کی سارے دکن پر حکمرانی تھی جبکہ مغل فرمانروا اورنگ زیب نے دکن پر فتح حاصل کرنے کے بعد میر قمرالدین خان کو اس خطے کا گورنر مقرر کیا تھا۔
اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد گورنر قمرالدین نے 1724 میں خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے بادشاہت کا اعلان کیا اور وہ پہلے نظام کہلائے۔
اس کے بعد ان کی چھ نسلوں نے اس خطے پر حکومت کی اور اس دوران خطے میں مختلف علوم و فنون کے فروغ پر توجہ دی گئی۔
آصفجاہی خاندان کے آخری بادشاہ میر عثمان علی خان نے بادشاہت کو جمہوریت میں تبدیل ہوتے دیکھا بلکہ وہ خود اس کا حصہ رہے۔
15 اگست 1947 میں بھارت، انگریزوں کی حکومت سے آزاد ہوا، اس وقت ملک کے اکثر ریاستوں میں بادشاہت قائم تھی جن میں حیدرآباد بھی شامل تھا۔
آہستہ آہستہ تمام ریاستوں نے اپنی ریاست کو ہندوستان میں ضم کردیا لیکن حیدرآباد کے بادشاہ اپنی رعایا کی بہتری کیلئے حیدرآباد کو آزاد رکھنا چاہتے تھے لیکن اس وقت آزاد ہند کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے حیدرآباد پر فوج کے ذریعے آپریشن پولو کے نام سے چڑھائی کردی۔
اس دوران حیدرآباد کے کم و بیش چار ہزار سپاہی، فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ اپنے سپاہیوں کی موت کی خبر سن کر نظام سابع نے بالآخر 17 ستمبر کو ریاست حیدرآباد کو انڈین یونین میں ضم کرنے کا اعلان کیا جن میں مہاراشٹرا اور کرناٹک کے کچھ علاقے بھی شامل تھے۔
مؤرخین کے مطابق آپریشن پولو کے نام پر اس وقت فوج نے 2 لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا تھا اور ظلم و بربریت کی انتہا کی گئی۔
بی جے پی اور کمیونسٹ جماعتیں اس دن کو یوم نجات کے طور مناتی ہیں۔
قبل ازیں آصفجاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے حیدرآباد کو مثالی ریاست میں تبدیل کردیا تھا، تعلیم و صحت کے علاوہ تمام شعبوں میں انہوں نے باقاعدہ محکمہ جات کا قیام عمل میں لایا تھا۔ انہیں آج بھی ہندوستان کا بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور پر یادکیا جاتا ہے۔
بی جے پی اور اس کی ہم خیال تنظیمیں 17 ستمبر کو جشن آزادی مناتی ہیں اور نظام کے خلاف زہرافشانی کرتی ہیں جبکہ بیشتر بی جے پی قائدین نے عثمانیہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔
اس کے برعکس ایسے غیر مسلم افراد کی بھی بہتات ہے جو آصف جاہی حکمراں کو رعایا پرور بادشاہ مانتے ہیں اور 17 ستمبر کو جشن منانے والوں کو آر ایس ایس کے ہم خیال قرار دیتے ہیں۔ ایسے سیکولر افراد میر عثمان علی خان کی جانب سے رعایا اور ملک کیلئے کئے گئے کاموں کو ناقابل فراموش قرار دیتے ہیں۔