ETV Bharat / state

سقوط حیدرآباد: 17ستمبر 1948 کو دکن کے علاقے، بھارت میں ضم ہوگئے - undefined

حیدرآباد پر قطب شاہی کے بعد آصف جاہی خاندان نے 224 برس حکمرانی کی۔

سقوط حیدرآباد: 17ستمبر 1948 کو دکن کے علاقے، بھارت میں ضم ہوگئے
author img

By

Published : Sep 17, 2019, 8:00 PM IST

Updated : Sep 30, 2019, 11:43 PM IST

اس خاندان کی سارے دکن پر حکمرانی تھی جبکہ مغل فرمانروا اورنگ زیب نے دکن پر فتح حاصل کرنے کے بعد میر قمرالدین خان کو اس خطے کا گورنر مقرر کیا تھا۔

اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد گورنر قمرالدین نے 1724 میں خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے بادشاہت کا اعلان کیا اور وہ پہلے نظام کہلائے۔

سقوط حیدرآباد: 17ستمبر 1948 کو دکن کے علاقے، بھارت میں ضم ہوگئے

اس کے بعد ان کی چھ نسلوں نے اس خطے پر حکومت کی اور اس دوران خطے میں مختلف علوم و فنون کے فروغ پر توجہ دی گئی۔

آصفجاہی خاندان کے آخری بادشاہ میر عثمان علی خان نے بادشاہت کو جمہوریت میں تبدیل ہوتے دیکھا بلکہ وہ خود اس کا حصہ رہے۔

15 اگست 1947 میں بھارت، انگریزوں کی حکومت سے آزاد ہوا، اس وقت ملک کے اکثر ریاستوں میں بادشاہت قائم تھی جن میں حیدرآباد بھی شامل تھا۔

آہستہ آہستہ تمام ریاستوں نے اپنی ریاست کو ہندوستان میں ضم کردیا لیکن حیدرآباد کے بادشاہ اپنی رعایا کی بہتری کیلئے حیدرآباد کو آزاد رکھنا چاہتے تھے لیکن اس وقت آزاد ہند کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے حیدرآباد پر فوج کے ذریعے آپریشن پولو کے نام سے چڑھائی کردی۔

اس دوران حیدرآباد کے کم و بیش چار ہزار سپاہی، فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ اپنے سپاہیوں کی موت کی خبر سن کر نظام سابع نے بالآخر 17 ستمبر کو ریاست حیدرآباد کو انڈین یونین میں ضم کرنے کا اعلان کیا جن میں مہاراشٹرا اور کرناٹک کے کچھ علاقے بھی شامل تھے۔

مؤرخین کے مطابق آپریشن پولو کے نام پر اس وقت فوج نے 2 لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا تھا اور ظلم و بربریت کی انتہا کی گئی۔

بی جے پی اور کمیونسٹ جماعتیں اس دن کو یوم نجات کے طور مناتی ہیں۔

قبل ازیں آصفجاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے حیدرآباد کو مثالی ریاست میں تبدیل کردیا تھا، تعلیم و صحت کے علاوہ تمام شعبوں میں انہوں نے باقاعدہ محکمہ جات کا قیام عمل میں لایا تھا۔ انہیں آج بھی ہندوستان کا بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور پر یادکیا جاتا ہے۔

بی جے پی اور اس کی ہم خیال تنظیمیں 17 ستمبر کو جشن آزادی مناتی ہیں اور نظام کے خلاف زہرافشانی کرتی ہیں جبکہ بیشتر بی جے پی قائدین نے عثمانیہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔

اس کے برعکس ایسے غیر مسلم افراد کی بھی بہتات ہے جو آصف جاہی حکمراں کو رعایا پرور بادشاہ مانتے ہیں اور 17 ستمبر کو جشن منانے والوں کو آر ایس ایس کے ہم خیال قرار دیتے ہیں۔ ایسے سیکولر افراد میر عثمان علی خان کی جانب سے رعایا اور ملک کیلئے کئے گئے کاموں کو ناقابل فراموش قرار دیتے ہیں۔

اس خاندان کی سارے دکن پر حکمرانی تھی جبکہ مغل فرمانروا اورنگ زیب نے دکن پر فتح حاصل کرنے کے بعد میر قمرالدین خان کو اس خطے کا گورنر مقرر کیا تھا۔

اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد گورنر قمرالدین نے 1724 میں خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے بادشاہت کا اعلان کیا اور وہ پہلے نظام کہلائے۔

سقوط حیدرآباد: 17ستمبر 1948 کو دکن کے علاقے، بھارت میں ضم ہوگئے

اس کے بعد ان کی چھ نسلوں نے اس خطے پر حکومت کی اور اس دوران خطے میں مختلف علوم و فنون کے فروغ پر توجہ دی گئی۔

آصفجاہی خاندان کے آخری بادشاہ میر عثمان علی خان نے بادشاہت کو جمہوریت میں تبدیل ہوتے دیکھا بلکہ وہ خود اس کا حصہ رہے۔

15 اگست 1947 میں بھارت، انگریزوں کی حکومت سے آزاد ہوا، اس وقت ملک کے اکثر ریاستوں میں بادشاہت قائم تھی جن میں حیدرآباد بھی شامل تھا۔

آہستہ آہستہ تمام ریاستوں نے اپنی ریاست کو ہندوستان میں ضم کردیا لیکن حیدرآباد کے بادشاہ اپنی رعایا کی بہتری کیلئے حیدرآباد کو آزاد رکھنا چاہتے تھے لیکن اس وقت آزاد ہند کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے حیدرآباد پر فوج کے ذریعے آپریشن پولو کے نام سے چڑھائی کردی۔

اس دوران حیدرآباد کے کم و بیش چار ہزار سپاہی، فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ اپنے سپاہیوں کی موت کی خبر سن کر نظام سابع نے بالآخر 17 ستمبر کو ریاست حیدرآباد کو انڈین یونین میں ضم کرنے کا اعلان کیا جن میں مہاراشٹرا اور کرناٹک کے کچھ علاقے بھی شامل تھے۔

مؤرخین کے مطابق آپریشن پولو کے نام پر اس وقت فوج نے 2 لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا تھا اور ظلم و بربریت کی انتہا کی گئی۔

بی جے پی اور کمیونسٹ جماعتیں اس دن کو یوم نجات کے طور مناتی ہیں۔

قبل ازیں آصفجاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے حیدرآباد کو مثالی ریاست میں تبدیل کردیا تھا، تعلیم و صحت کے علاوہ تمام شعبوں میں انہوں نے باقاعدہ محکمہ جات کا قیام عمل میں لایا تھا۔ انہیں آج بھی ہندوستان کا بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور پر یادکیا جاتا ہے۔

بی جے پی اور اس کی ہم خیال تنظیمیں 17 ستمبر کو جشن آزادی مناتی ہیں اور نظام کے خلاف زہرافشانی کرتی ہیں جبکہ بیشتر بی جے پی قائدین نے عثمانیہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔

اس کے برعکس ایسے غیر مسلم افراد کی بھی بہتات ہے جو آصف جاہی حکمراں کو رعایا پرور بادشاہ مانتے ہیں اور 17 ستمبر کو جشن منانے والوں کو آر ایس ایس کے ہم خیال قرار دیتے ہیں۔ ایسے سیکولر افراد میر عثمان علی خان کی جانب سے رعایا اور ملک کیلئے کئے گئے کاموں کو ناقابل فراموش قرار دیتے ہیں۔

Intro:حیدرآباد پر قطب شاہوں کے بعد آصف جاہوں نے حکمرانی کی 224 برس اس خاندان نے دکن کی سرزمین پر حکومت کی_ مغل فرمانروا اورنگزیب نے دکن پر فتح حاصل کرنے کے بعد میر قمرالدین خان کو اس خطے کا گورنر مقرر کیا اورنگزیب عالمگیر کے انتقال کے بعد گورنر قمرالدین نے 1724 میں خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے بادشاہت کا اعلان کیا اور پہلے نظام کہلائے_ اس کے بعد ان کی چھ پشتوں نے اس خطے پر حکومت کی اس دوران اس خطے میں مختلف علوم و فنون کے فروغ پر توجہ دی گئی_ آصفجاہی خاندان کے آخری بادشاہ میر عثمان علی خان نے بادشاہت کو جمہوریت میں تبدیل ہوتے دیکھا بلکہ وہ خود اس کا حصہ رہے ب15 اگست 1947 میں ہندوستان انگریزی حکومت سے آزاد ہوا اس وقت ملک کے اکثر ریاستوں میں بادشاہت قائم تھی جن میں حیدرآباد بھی شامل تھا آہستہ آہستہ تمام ریاستوں نے اپنی ریاست کو ہندوستان میں ضم کردیا لیکن حیدرآباد کے بادشاہ اپنی رعایا کی بہتری کیلئے حیدرآباد کو آزاد رکھنا چاہتے تھے لیکن اس وقت آزاد ہند کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے حیدرآباد پر فوج کے ذریعے آپریشن پولو کے نام سے چڑھائی کردی اس دوران حیدرآباد کے کم و بیش چار ہزار سپاہی فوج کے ہاتھوں مارے گئے اپنے سپاہیوں کی موت کی خبر سن کر نظام سابع نے بالآخر 17 سپٹمبر کے دن ریاست حیدرآباد کو انڈین یونین میں ضم کرنے کا اعلان کیا جن میں مہا راشٹرا اور کرناٹک کے کچھ علاقے شامل تھے_مؤرخین کے مطابق آپریشن پولو کے نام پر اس وقت فوج نے 2 لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا اور ظلم و بربریت کی انتہا کی_ بی جے پی اور کمیونسٹ جماعتیں اس دن کو یوم نجات مناتی ہیں_ آصفجاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے حیدرآباد کو مثالی ریاست میں تبدیل کردیا تھا تعلیم و صحت کے علاوہ تمام شعبوں میں انہوں نے باقاعدہ محکمہ جات کا قیام عمل میں لایا تھا_ انہیں آج بھی ہندوستان کا بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور پر یادکیا جاتا ہے_


Body:بی جے پی اور اس کی ہم خیال تنظیمیں 17 سپٹمبر کو جشن آزادی مناتی ہیں اور نظام کھ خلاف زہر افشانی کرتی ہیں جبکہ بیشتر بی جے پی قائدین نے عثمانیہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی_ اس کے برعکس ایسے غیر مسلم افراد کی بھی بہتات ہے جو آصف جاہی حکمراں کو رعایا پرور بادشاہ مانتے ہیں اور 17 سپٹمبر کو جشن منانے والوں کو آر ایس ایس کے ہم خیال قرار دیتے ہیں ایسے سیکیولر افراد میر عثمان علی خان کو وہ آج بھی بادشاہ تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رعایا اور ملک کیلئے جو کچھ انہوں نے کیا وہ ناقابل فراموش ہے_


Conclusion:1 رام چندرا ریڈی _ سابق رکن اسمبلی بی جے پی
2 کے چرنجیوی_ مؤرخ دکن
Last Updated : Sep 30, 2019, 11:43 PM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.