حیدرآباد: پرانی حویلی کی تعمیر آصف جاہی سلطنت کے نظام نواب سکندر جاہ نے کروائی تھی۔ اس کا تعمیراتی کام سنہ 1803 میں شروع ہو کر سنہ 1829 میں مکمل ہوا۔ اس حویلی میں آصف جاہی شاہی خاندان رہتا تھا۔ اس حویلی کی مرکزی عمارت 18ویں صدی کے یورپی فن تعمیر کا نمونہ ہے۔دوسرے نظام میر نظام علی خان کے جانشین سکندر جاہ کچھ عرصہ یہاں رہے اور بعد میں چاؤ محلہ محل میں منتقل ہو گئے۔ اسی وجہ سے ان عمارتوں کو پرانی حویلی کہا جاتا ہے۔
نواب میر محبوب علی خاں بہادر کی پیدائش اس حویلی میں ہی ہوئی تھی۔ میر محبوب علی خاں بہادر اسی حویلی میں رہا کرتے تھے۔ پرانی حویلی، یورپی، اٹلی اور دکنی طرز تعمیر کو نمونہ ہے۔ اس حویلی کے ایک حصہ میں نظام میوزیم ہے جس میں نظام میر عثمان علی خان بہادر کے دور کے نایاب و خصوصی سامان موجود ہیں۔ یہاں نظام میر عثمان علی خان کی گدی، تلواریں، چھڑی، ٹفن باکس و دیگر اشیاء موجود ہیں۔
نظام میر عثمان علی خان بہادر نےسنہ 1936 میں سلور جُبلی فنکشن منایا تھا، جس میں نظام کے دور میں تعمیر کردہ عمارتوں کے چاندی و سونے کے ماڈلز نظام کو تحفے کے طور پر دیے گئے تھے اور یہ آج بھی نظام میوزیم میں موجود ہیں۔ اس حویلی کی ایک انوکھی خصوصیت دنیا کی سب سے لمبی الماری ہے، جسے دو منزلوں میں بنایا گیا ہے۔ اس محل میں نظام کا عجائب گھر بھی ہے، جو ریاست حیدرآباد کے آخری نظام کے لیے وقف ہے۔ فی الحال یہ محل ایک اسکول اور صنعتی تربیتی ادارے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔