تاہم ہنوز کورونا وبا کا خوف لوگوں کے دلوں میں برقرار ہے جس کے پیش نظر ہوٹلوں،رسٹورنٹس اور کھانے پینے کی اشیا فراہم کرنے والے اداروں میں حد سے زیادہ احتیاط کیا جارہا ہے۔ اگرچہ کہ کئی ایسے ادارے کھل گئے ہیں تاہم ان کے مالکین کی جانب سے نئے طریقہ کار پر عمل کیاجارہا ہے۔
پرانے شہر کی تقریبا تمام ہوٹلوں میں تو کسی بھی گاہک کو بیٹھ کر کھانے کی اجازت نہیں ہے تاہم نئے شہر کے بعض بڑی رسٹورنٹس میں نئے طریقہ کار کے مطابق ہوٹلوں،رسٹورنٹس میں داخل ہونے سے پہلے باب الداخلہ پر تھرمل اسکریننگ اور ہاتھوں کو جراثیم سے پاک بنانے کا عمل اختیار کیاجارہا ہے۔
ریسٹورنٹس /ہوٹلوں میں رنگ سے بنائے گئے پیروں کے نشانوں پر قطار میں گاہکوں کو ٹہرایاجارہا ہے۔ ہوٹلوں کے مینوز بھی اب ڈیجیٹل ہوگئے ہیں۔
لاک ڈاون میں نرمی کے بعد اس طرح کی صورتحال شہریان حیدرآباد کیلئے نئی ہے جو پہلے اس طرح کی صورتحال سے ناآشنا تھے لیکن اب حالات کے پیش نظر انھیں یہ نیا طریقہ سمجھانا پڑرہا ہے اور اس پر عمل ان کے لئے قدرے مشکل ضرور ہے تاہم اس پر عمل کرنا ان کی مجبوری بن گیا ہے۔
نئے شہر کے رسٹورنٹس،ہوٹلوں اور کھانے پینے کی اشیا فراہم کرنے والے اداروں میں ٹیبل پر صرف دو افراد کو ہی بیٹھ کر کھانے کی اجازت دی گئی ہے جس کے لئے میز کے دو طرف صرف ایک،ایک کرسی ہی رکھی جارہی ہے جبکہ قبل ازیں ایک بڑی کرسی ڈالی جاتی تھی جس پر ایک طرف دو اور دوسری طرف دو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوا کرتی تھی۔
بعض ہوٹلوں میں میزوں کے درمیان شیشے لگائے گئے ہیں تاکہ فاصلہ بنا رہے۔ ہوٹلوں میں آنے والوں کے لئے ماسک لازمی قراردیاجارہا ہے اور ماسک پہنے ویٹرس گاہکوں کا استقبال کررہے ہیں۔
شہر کے بعض مقامات پر کھانے پینے کی اشیا فراہم کرنے والے مراکز اپنے گاہکوں سے وہاں کھانے کے بجائے پارسل اپنے ساتھ لے جانے کے لیے بھی اصرار کررہے ہیں جس کا مقصد ہجوم کو کم کرنا ہے۔
ہوٹلوں میں بفے سسٹم بھی ختم کردیاگیا۔کئی ہوٹلوں میں ڈیجیٹل ادائیگیاں ہی قبول کی جارہی ہیں تاکہ انسانی رابطہ کو کم کیاجاسکے۔ان ادائیگوں کو قبول کرنے والے یا پھر کاونٹرپر بیٹھنے والے اپنے منہ پر ماسک لگانے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں پر دستانے پہن رہے ہیں۔اسٹاف کی جانب سے میزوں کو جراثیم سے پاک کیا جارہا ہے اور بیت الخلا کی وقفہ وقفہ سے صفائی کا کام بھی انجام دیاجارہا ہے۔