پروفیسر اشرف رفیع نے اس مجلے کی رسم کشائی انجام دی اور غالب کو ہر دور کا شاعر کہتے ہوئے بتایا کہ غالب پر نہ صرف بھارت بلکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی تحقیق کرتے ہیں جن میں روس بھی شامل ہے۔
انہوں نےمزید کہا کہ غالب ایک ایسے شاعر تھے جن پر سب سے زیادہ تحقیق کی گئی اور سب سے زیادہ لکھا اور پڑھا گیا جس کی اہم وجہ ان کی شاعری میں استعمال کئے جانے والے سادہ الفاظ ہیں جو تھوڑی بھی اردو جاننے والے کی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔
غالب اکیڈمی حیدرآباد کے رکن قطب الدین سرشار نے اس اکیڈمی کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جنوبی بھارت میں غالب کے بہت پرستار ہیں جن کی شدت سے خواہش تھی کہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہو جہاں غالب کو یاد کیا جا سکے۔
اسی خواہش پر اس اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے تحت ہر مہینہ مجلس منعقد کرتے ہوئے تعلیمی و ادبی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔
قطب الدین سرشار نے کہا کہ وہ نوجوانوں کو غالب کی اردو سے واقف کروانا چاہتے ہیں جس کے ناپید ہونے کے خدشات قوی ہوتے جا رہے ہیں۔