اس عاشور خانے کو آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں تعمیر کیا۔
آصف جاہ سابع کی والدہ امت الزہرا شیعہ برادری سے تعلق رکھتی تھیں_ موسی ندی کے کنارے واقع اس عزاخانہ کی تعمیر کا آغاز سنہ 1930 میں ہوا جو تعمیر اور رقبے کے اعتبار سے جنوبی ہند کا خوبصورت اور بڑا عاشور خانہ مانا جاتا ہے۔
اس عمارت میں بیک وقت بیس ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ محرم کا چاند نظر آتے ہی اس عاشور خانے میں ہیروں سے جڑے علم کی ایستادگی عمل میں آتی ہے۔
اس وسیع و عریض عمارت کی تعمیر اس وقت کے معروف آرکیٹیکٹ زین یار جنگ کی نگرانی میں ہوئی جنہوں نے یوروپ اور رومن طرز پر اس عمارت کو ڈیزائن کیا۔
یہ عاشور خانہ دو منزلوں پر مشتمل ہے نیچے مرد اور اوپری منزل خواتین کےلیے مختص ہے۔ عمارت کی دیواروں پر قرآنی آیات کندہ کی گئی ہیں اور اس میں بیلجیم کے جھومر آویزاں کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ اس عاشور خانے کی دیواروں پر ہاتھ سے لکھی اردو و فارسی زبان کی نظمیں موجود ہیں جن میں میر عثمان علی خان کی لکھی نظمیں بھی شامل ہیں۔ اس عاشور خانے نے اپنی تعمیر کے نوے برس مکمل کر لیے ہیں اور آج بھی اس کے در و دیوار مضبوط ہیں۔