سی اے اے مخالف احتجاج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں 21 فروری کو کیا گیا تھا۔ 6 اکتوبر کو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے طلبہ کو نوٹسیں جاری کرتے ہوئے ان سے جانچ عہدیدار کے سامنے حاضر رہنے کی خواہش کی گئی ہے تاہم لاک ڈاون کی وجہ سے کئی طلبہ اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
پولیس نے کہا کہ ان طلبہ نے اپنی تقاریر کے ذریعہ کیمپس کے پُرامن ماحول کو مکدر کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے یہ بھی الزام لگایا کہ طلبہ نے پولیس سے اس ریلی کی اجازت نہیں لی تھی۔
یونیورسٹی آف حیدرآباد کے کشمیری طالب علم ہادف نثار جو اب اننت ناگ میں ہیں نے کہا کہ جاریہ سال فروری میں ہوئے احتجاج کی ایف آئی آر اب سامنے آئی ہے، ہمیں نہیں پتہ کہ پولیس اب کیوں نوٹسیں جاری کررہی ہے تاہم، ہم جانچ ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کریں گے اور ہم اسی دوران اس ایف آئی آر کو کالعدم قرار دینے کےلیے تلنگانہ ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
یونیورسٹی آف حیدرآباد کے کیرل سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم طاہر جمال نے کہا کہ ناراض آوازوں کو دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہمیں خاموش کرنے کے لیے انتباہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ طلبہ کا کہنا ہیکہ یہ احتجاج پرامن تھا اور اس کے ذریعہ کسی بھی طرح کی گڑبڑ یا پھر امن میں رخنہ ڈالنا نہیں تھا۔
اسی دوران مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر عمر فاروق نے ایف آئی آر کے اندراج پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یونیورسٹی آف حیدرآباد اور اردو یونیورسٹی کے طلبہ نے مشترکہ طورپر پُرامن احتجاج کا کال دیا تھا۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد کے طلبہ خاموشی کے ساتھ اردو یونیورسٹی کے گیٹ تک ریلی کی شکل میں پلے کارڈس کے ساتھ آئے تھے چونکہ وہ طلبہ زیادہ تعداد میں تھے تو وہ ریلی کی شکل ہی ہوگئی۔ طلبہ نے کسی بھی قسم کی نعرے بازی نہیں کی تاہم رائے درگم پولیس نے ان طلبہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے حالانکہ ان طلبہ نے کسی بھی قسم کی کوئی اشتعال انگیز تقاریر نہیں کیں۔ اس موقع پر اردو یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف حیدرآباد کے طلبہ نے بھی تقاریر کیں۔ صرف یونیورسٹی آف حیدرآباد کے طلبہ کو ہی کیوں نشانہ بنایاگیا؟
انہوں نے الزام لگایا کہ یونیورسٹی آف حیدرآباد کا انتظامیہ اور رائے درگم کی پولیس نے مل کر وہاں کے طلبہ کی آواز کو دبانے اور احتجاج کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو دھمکانے کے لیے کیس درج کئے، اس معاملہ کو 8 ماہ بعد اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ حیدرآباد میں جتنے بھی احتجاج ہوئے ہیں، ان کی باری آنے والی ہے۔ دہلی پولیس کا جو کھیل ہے وہ تلنگانہ پولیس کھیل رہی ہے۔ مرکزی حکومت نے جس طرح دہلی میں پُرامن احتجاج کرنے والوں کو دبانے کی کوشش کی اسی طرح تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت مسلمانوں کی آواز کو دبانے کےلیے یہ کام کررہی ہے۔ پولیس کا ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
2014کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت اپوزیشن کا رول ادا نہیں کررہی ہے صرف طلبہ یونینیں ہی حکومت کی ناکامیوں کے خلاف آواز اٹھارہی ہیں۔ طلبہ کے جمہوری حق کو چھینا جارہا ہے۔