اکبرالدین اویسی کی دو مبینہ اشتعال انگیز تقاریر کے مقدمات پر آج فیصلہ آگیا۔ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے خلاف درج کئے گئے مقدمات کی سماعت کےلیے قائم کی گئی خصوصی عدالت نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے فلور لیڈر کو نرمل اور نظام آباد ضلع میں مبینہ طور پر نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں دائر دو مقدمات میں باعزت بری کردیا۔ فیصلہ کے پیش نظر نامپلی عدالت کے احاطے میں اور آس پاس کے علاقے میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق اکبرالدین اویسی آج نامپلی عدالت میں حاضر ہوئے۔ اکبرالدین پر 2012 میں نظام آباد اور نرمل میں ’اشتعال انگیز تقاریر‘ کرنے کا الزام ہے۔ جج نے استغاثہ اور ملزمان دونوں کے دلائل سننے کے بعد چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ دونوں مقدمات کا فیصلہ 12 اپریل کو سنایا جائے گا لیکن آج 13 اپریل کو فیصلہ سنایا گیا اور نرمل اور نظام آباد میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں دائر مقدمات میں اکبرالدین اویسی کو بری کردیا گیا۔
خصوصی عدالت نے فروری 21 تا 7 مارچ کو گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے اور سماعت مکمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد عدالت میں 38 گواہوں بشمول پولیس عہدیداروں نے اپنا بیان قلمبند کروایا تھا۔ نرمل کے سابق انسپکٹر پولیس لکشمی نرسمہا سوامی نے عدالت کو بتایا تھا کہ 22 ڈسمبر 2012 کو مجلس کی جانب سے این ٹی آر اسٹیڈیم نرمل میں جلسہ منعقد کیا گیا تھا جس میں اکبر اویسی نے قابل اعتراض و اشتعال انگیز تقریر کی اور دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ وکیل دفاع اور استغاثہ کے وکیل کے مباحث کے بعد خصوصی عدالت نے اس کیس کے فیصلہ کو محفوظ کرلیا تھا۔
مجلسی قائد مقننہ اکبرالدین اویسی حلقہ اسمبلی چندرائن گٹہ سے 1999 سے 2018 تک لگاتار پانچ مرتبہ منتخب ہوئے ہیں۔ 2012 میں نرمل ٹاؤن جو کہ اس وقت متحدہ آندھراپردیش کے عادل آباد ضلع کا ایک ٹاؤن اور اب علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد ضلع بنادیا گیا میں اکبرالدین اویسی کی جانب سے کی گئی تقاریر کو ملک اور ہندووں کے خلاف اشتعال انگیز اور متنازعہ قرار دیتے ہوئے ایک وکیل کاشیم شیٹی کرونا ساگر نے اکبرالدین اویسی کے خلاف نامپلی عدالت میں ایک پٹیشن داخل کی تھی، جس کے بعد پولیس کی جانب سے تحقیقات کرتے ہوئے اکبرالدین اویسی کو 8 جنوری 2013ء کو گرفتار کرکے عادل آباد ڈسٹرکٹ جیل منتقل کیا تھا۔ بعدازاں 40 دن بعد 15 فروری 2013ء کو اکبر الدین اویسی ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اکبرالدین اویسی پر 2011ء میں قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے اور کئی دنوں تک ہسپتال میں زیر علاج رہ چکے ہیں۔
نظام آباد نفرت انگیز تقریر کیس میں کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ نے 41 گواہوں سے جرح کی تھی۔ اسی طرح نرمل پولس کے ذریعہ درج کیس میں 33 گواہوں سے جرح کی گئی۔ سال 2012 میں اکبرالدین کی جانب سے مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کے معاملہ میں نرمل ٹاؤن پولیس نے رکن اسمبلی اور نرمل ٹاؤن میں پارٹی کے صدر عظیم بن یحییٰ کے خلاف آئی پی سی کی مختلف دفعہ 120-B (مجرمانہ سازش)، 153-A (مجرمانہ سازش) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ اس پر مذہب کی بنیاد پر دو گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 295 (A) (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کام، کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا)، 298 (کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا ارادہ۔ شخص) اور 188 (سرکاری ملازم کے ذریعہ جاری کردہ حکم کی نافرمانی) کے الزامات بھی عائد کئے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:
پہلا مقدمہ نرمل ٹاون پولیس اسٹیشن کا ہے جبکہ دوسرا مقدمہ نظام آباد ٹاون کا ہے۔ دونوں کیسس میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں مقدمات درج کئے گئے تھے، تاہم طویل سماعت کے بعد گذشتہ 12 اپریل کو فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تھا لیکن وکیل دفاع نے عدالت میں ایک درخواست داخل کرکے نظام آباد معاملہ میں مزید تحریری مباحث نامہ کو داخل کرنے کی اجازت طلب کی تھی جس پر عدالت نے اسے قبول کرلیا اور 13 اپریل تک فیصلہ کو ملتوی کردیا تھا۔