ETV Bharat / state

چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام - Heritage building demolished in hyderabad

تلنگانہ میں آثار قدیمہ کا تحفظ محض دعوی یا حقیقت؟ چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کو روڈ کی توسیع کے لیے خاموشی سے منہدم کر دیا گیا۔

چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام
چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام
author img

By

Published : Jun 4, 2021, 10:00 PM IST

عالمی وبا کورونا وائرس (COVID-19) لاک ڈاؤن کے دوران نہایت ہی خاموشی سے حیدرآباد دکن کے علاقہ عنبرپیٹ میں سڑک کی توسیع کے نام پر 400 سالہ قدیم قطب شاہی سرائے کو منہدم کردیا گیا ہے۔

چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام
چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام

عنبرپیٹ کی یہ سرائے قطب شاہی دور کی نایاب و نادر اور بے مثال عمارتوں کا ایک حصہ ہے۔ جو ماضی کی شان و شوکت کا ایک جیتا جاگتا اور بہترین نمونہ تھی۔ لیکن اب اس سرائے کو جی ایچ ایم سی کی جانب سے سڑک کی توسیع کے نام پر منہدم کیا گیا ہے۔

چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام
چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام
عنبرپیٹ سرائے جامع مسجد، عاشور خانۂ عباس اور تاریخی ایک خانہ مسجد کا حصہ ہے۔ تاریخی ایک خانہ مسجد کو سنہ 2019 میں گریٹر حیدر آباد میونسپل کارپوریشن (Greater Hyderabad Municipal Corporation) کی جانب سے سڑک کی توسیع کے ضمن میں منہدم کردیا گیا تھا۔
چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام
چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام

عنبرپیٹ سرائے دوسری تاریخی عمارت ہے جسے جی ایچ ایم سی نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مسمار کردیا ہے۔ محض چند سال میں حیدرآباد کی یادگاروں میں شمار ہونے والے ان تاریخی عمارتوں کے انہدام کے بعد مقامی عوام کا کہنا ہے کہ تلنگانہ میں برسراقتدار جماعت کی جانب سے آثار قدیمہ کے تحفظ کا دعوی کھوکلا ثابت ہورہا ہے۔

عنبرپیٹ کے مقامی نوجوان شکیل احمد کا کہنا ہے کہ ’’حکومت نے چار سو سالہ قدیم قطب شاہی دور کی ایک خانہ مسجد کو تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ جو کہ ہنوز وعدہ ہی ہے۔ جس پر تاحال عمل نہیں کیا گیا۔ ابھی یہ وعدہ مکمل نہیں ہوا کہ اسی دوران عنبرپیٹ کے تاریخی سرائے پر بھی بری نظر ڈالی گئی اور اسے بھی ڈھا دیا گیا۔

اس تاریخی عمارت سے حکومت کو کیا تکلیف ہورہی تھی؟ جب کہ ایسی تاریخی عمارتیں آثار قدیمہ میں شمار ہوتی ہیں۔ عنبرپیٹ سرائے تو عہد قطب شاہی کی عظیم و شان یاد گار تھی۔
سرائے کیوں تعمیر کیے گئے تھے؟
دکن آرکائیو (The Deccan Archive) کے بانی، بلاگر اور مورخ صبغت خان نے بتایا کہ ’’سرائے قطب شاہی فن تعمیر اور ہائی وے انفراسٹرکچر کا لازمی حصہ تھے۔

قطب شاہی سرایوں میں مسافروں کے ٹھہرنے کے انتظامات کیے جاتے تھے۔ قطب شاہی دور میں ان سرایوں میں مفت سہولیات کے طور پر رہائش گاہیں پانی اور دیگر ضروری سامان مہیا تھا۔

ان سرایوں کو اہم شاہراہوں پر تعمیر کیا گیا تھا اور نمازیوں کے لئے سرایوں کے ساتھ ساتھ مساجد بھی تعمیر کی گئیں تھی ۔

صبغت خان نے بتایا کہ اس طرح کے سرائیں حیات نگر، حکیم پیٹ، شیخ پیٹ اور میسرم میں بھی موجود ہیں جن کے آثار اب بھی باقی ہیں۔

عنبرپیٹ کا نام مشہورصوفی بزرگ حضرت عنبر شاہ بابا (Hazrat Ambar Shah Baba) کے نام سے موسوم ہے۔
انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج (Indian National Trust for Art and Cultural Heritage) حیدرآباد کی کنوینر انورادھا ریڈی (Anuradha Reddy) نے بتایا کہ ’’تمام تاریخی یادگاریں ہمارا ورثہ ہیں چاہے وہ کسی بھی سرکاری اتھارٹی کے ذریعہ تسلیم شدہ ہو یا نہ ہو۔

ان تاریخی عمارتوں کا اپنا وجود ہے۔ ان کی اپنی تاریخی و ثقافتی اہمیت ہے۔ جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘۔
ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مزدوروں کے لیے اس ڈھانچے کو توڑنا بہت مشکل محسوس ہو رہا تھا جو اب تک مضبوط ہے۔ سرائے کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا بیشتر حصہ اپنے قیام کے چار سو سال کے بعد بھی جوںکا توں برقرار تھا۔
صبغت خان نے بتایا کہ ’’اس سرائے نے پہلی مرتبہ اس وقت مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، جب میں اپل میں اپنے کالج جانے کے لیے روزانہ یہاں سے سفر کرتا تھا۔ اس دوران تاریخ کھوجتے ہی مجھے معلوم ہوا کہ یہ ڈھانچہ دراصل قطب شاہی دور کی فن تعمیرات کا ایک نادر نمونہ ہے۔

قطب شاہی دور کی تاریخ اور ورثہ کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے قطب شاہی فن تعمیر پر مبنی اس سرائے کا انہدام نہایت افسوس ناک ہے۔

عالمی وبا کورونا وائرس (COVID-19) لاک ڈاؤن کے دوران نہایت ہی خاموشی سے حیدرآباد دکن کے علاقہ عنبرپیٹ میں سڑک کی توسیع کے نام پر 400 سالہ قدیم قطب شاہی سرائے کو منہدم کردیا گیا ہے۔

چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام
چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام

عنبرپیٹ کی یہ سرائے قطب شاہی دور کی نایاب و نادر اور بے مثال عمارتوں کا ایک حصہ ہے۔ جو ماضی کی شان و شوکت کا ایک جیتا جاگتا اور بہترین نمونہ تھی۔ لیکن اب اس سرائے کو جی ایچ ایم سی کی جانب سے سڑک کی توسیع کے نام پر منہدم کیا گیا ہے۔

چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام
چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام
عنبرپیٹ سرائے جامع مسجد، عاشور خانۂ عباس اور تاریخی ایک خانہ مسجد کا حصہ ہے۔ تاریخی ایک خانہ مسجد کو سنہ 2019 میں گریٹر حیدر آباد میونسپل کارپوریشن (Greater Hyderabad Municipal Corporation) کی جانب سے سڑک کی توسیع کے ضمن میں منہدم کردیا گیا تھا۔
چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام
چار سو سالہ قدیم قطب شاہی عنبرپیٹ سرائے کا انہدام

عنبرپیٹ سرائے دوسری تاریخی عمارت ہے جسے جی ایچ ایم سی نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مسمار کردیا ہے۔ محض چند سال میں حیدرآباد کی یادگاروں میں شمار ہونے والے ان تاریخی عمارتوں کے انہدام کے بعد مقامی عوام کا کہنا ہے کہ تلنگانہ میں برسراقتدار جماعت کی جانب سے آثار قدیمہ کے تحفظ کا دعوی کھوکلا ثابت ہورہا ہے۔

عنبرپیٹ کے مقامی نوجوان شکیل احمد کا کہنا ہے کہ ’’حکومت نے چار سو سالہ قدیم قطب شاہی دور کی ایک خانہ مسجد کو تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ جو کہ ہنوز وعدہ ہی ہے۔ جس پر تاحال عمل نہیں کیا گیا۔ ابھی یہ وعدہ مکمل نہیں ہوا کہ اسی دوران عنبرپیٹ کے تاریخی سرائے پر بھی بری نظر ڈالی گئی اور اسے بھی ڈھا دیا گیا۔

اس تاریخی عمارت سے حکومت کو کیا تکلیف ہورہی تھی؟ جب کہ ایسی تاریخی عمارتیں آثار قدیمہ میں شمار ہوتی ہیں۔ عنبرپیٹ سرائے تو عہد قطب شاہی کی عظیم و شان یاد گار تھی۔
سرائے کیوں تعمیر کیے گئے تھے؟
دکن آرکائیو (The Deccan Archive) کے بانی، بلاگر اور مورخ صبغت خان نے بتایا کہ ’’سرائے قطب شاہی فن تعمیر اور ہائی وے انفراسٹرکچر کا لازمی حصہ تھے۔

قطب شاہی سرایوں میں مسافروں کے ٹھہرنے کے انتظامات کیے جاتے تھے۔ قطب شاہی دور میں ان سرایوں میں مفت سہولیات کے طور پر رہائش گاہیں پانی اور دیگر ضروری سامان مہیا تھا۔

ان سرایوں کو اہم شاہراہوں پر تعمیر کیا گیا تھا اور نمازیوں کے لئے سرایوں کے ساتھ ساتھ مساجد بھی تعمیر کی گئیں تھی ۔

صبغت خان نے بتایا کہ اس طرح کے سرائیں حیات نگر، حکیم پیٹ، شیخ پیٹ اور میسرم میں بھی موجود ہیں جن کے آثار اب بھی باقی ہیں۔

عنبرپیٹ کا نام مشہورصوفی بزرگ حضرت عنبر شاہ بابا (Hazrat Ambar Shah Baba) کے نام سے موسوم ہے۔
انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج (Indian National Trust for Art and Cultural Heritage) حیدرآباد کی کنوینر انورادھا ریڈی (Anuradha Reddy) نے بتایا کہ ’’تمام تاریخی یادگاریں ہمارا ورثہ ہیں چاہے وہ کسی بھی سرکاری اتھارٹی کے ذریعہ تسلیم شدہ ہو یا نہ ہو۔

ان تاریخی عمارتوں کا اپنا وجود ہے۔ ان کی اپنی تاریخی و ثقافتی اہمیت ہے۔ جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘۔
ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مزدوروں کے لیے اس ڈھانچے کو توڑنا بہت مشکل محسوس ہو رہا تھا جو اب تک مضبوط ہے۔ سرائے کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا بیشتر حصہ اپنے قیام کے چار سو سال کے بعد بھی جوںکا توں برقرار تھا۔
صبغت خان نے بتایا کہ ’’اس سرائے نے پہلی مرتبہ اس وقت مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، جب میں اپل میں اپنے کالج جانے کے لیے روزانہ یہاں سے سفر کرتا تھا۔ اس دوران تاریخ کھوجتے ہی مجھے معلوم ہوا کہ یہ ڈھانچہ دراصل قطب شاہی دور کی فن تعمیرات کا ایک نادر نمونہ ہے۔

قطب شاہی دور کی تاریخ اور ورثہ کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے قطب شاہی فن تعمیر پر مبنی اس سرائے کا انہدام نہایت افسوس ناک ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.