حیدرآباد: تلنگانہ کے دار الحکومت حیدرآباد میں انتہا پسند تنظیم حزب التحریر (HUT) کے مبینہ ارکان سے پوچھ گچھ کی بنیاد پر سنسنی خیز دعوے کیے ہیں۔ پولیس کا دعوی ہے کہ تنظیم کے ارکان حیدرآباد میں تباہی پھیلانے کی سازش کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں مدھیہ پردیش اور تلنگانہ سے 17 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اس تنظیم کے لوگ پہلے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور انہیں اپنی تنظیم سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں انہیں تکنیکی اور دوسرے نقطہ نظر سے تربیت دی جاتی ہے۔ حملے تیسرے مرحلے میں کیے جاتے ہیں۔ پولیس دعوے کے مطابق بڑے پیمانے پر حملے کرکے خوفناک صورتحال پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ پولیس کو پتہ چلا کہ انہیں بندوقوں، کلہاڑیوں اور چاقو سے حملہ کرنے کی تربیت وقار آباد کی اننت گری پہاڑیوں میں دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ مدھیہ پردیش پولیس نے بھوپال اور حیدرآباد میں بیک وقت چھاپے مار کر 16 لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ ان میں سے پانچ کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ بدھ کو مزید ایک شخص کی گرفتاری کے بعد ملزمان کی تعداد 17 ہو گئی۔ پولیس کو پتہ چلا کہ محمد سلیم عرف سوربھ راج، جو ایک کالج کے ایچ او ڈی کے طور پر کام کر رہا ہے، حیدرآباد میں ایچ یو ٹی کی جانب سے سرگرمیوں کا انچارج تھا۔ وہ گولکنڈہ بڑا بازار علاقہ میں ایک مکان میں رہتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ تمام ملزمان ان کی رہائش گاہ پر متعدد بار ملے۔ ان میٹنگوں میں عبدالرحمن، محمد عباس علی، شیخ جنید، محمد حامد، محمد سلمان اور کچھ دوسرے نوجوانوں نے شرکت کی۔ وہ اکثر ان سے ملتا تھا اور ایجنڈہ سمجھا کر انہیں اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔
ملزمان گرفتاری سے قبل مختلف مقامات پر ملے ہیں۔ چار علاقوں میں خصوصی ٹیمیں تحقیقات کر رہی ہیں کہ وہ کیوں ملے۔ ملزمان نے نوجوانوں کو راغب کرنے اور اپنی سرگرمیاں تیز کرنے کے لیے یوٹیوب چینل شروع کیا۔ اس میں دیگر موضوعات سے متعلق 33 ویڈیوز ہیں۔ تقریباً 3,600 لوگوں نے اسے سبسکرائب کیا ہے۔ مذہب کی تبدیلی کے موضوع پر بات کرنے والی خاتون کی شناخت ایک ملزم کی بیوی کے طور پر کی گئی ہے۔