نئی دہلی: سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کے گورنر کی طرف سے بلوں پر فیصلہ کرنے میں تاخیر پر پیر کو سوال کیا کہ وہ پچھلے تین برسوں سے کیا کر رہے تھے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹرمانی سے پوچھا، ''گورنر کو متعلقہ فریقوں کے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا انتظار کیوں کرنا چاہئے؟ گورنر تین سال تک کیا کرتے رہے؟
بنچ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے 10 نومبر 2023 کو حکم جاری کیا تھا جبکہ یہ بل جنوری 2020 سے زیر التوا ہیں۔ بنچ نے مزید کہا ’’اس کا مطلب ہے کہ گورنر نے فیصلہ عدالت کی طرف سے نوٹس جاری ہونے کے بعد کیا‘‘۔
اس پر مسٹر وینکٹرمانی نے بنچ کے سامنے عرض کیا کہ یہ تنازعہ صرف ان بلوں سے متعلق ہے جو ریاستی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تقرری سے متعلق گورنر کے اختیارات کو چھیننے کی کوشش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اس لیے کچھ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ گورنر صرف تکنیکی مبصر نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تازہ ترین کیس کو ان بلوں کی درستگی پر منظوری کے طور پر نہیں لیا جانا چاہئے۔
سینئر وکلاء اے ایم سنگھوی، پی ولسن اور مکل روہتگی نے تمل ناڈو حکومت کی طرف سے پیش ہوکر دلیل دی کہ آرٹیکل 200 کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گورنر بل کو روک دیں گے۔ روکنے کے پیچھے کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر صرف یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے اجازت روک دی ہے۔ سنگھوی نے کہا کہ اصول یہ ہے کہ ایک بار واپس کرنے کے بعد یہ منی بل کے برابر ہو جاتا ہے۔
یو این آئی۔