کشمیر وادی میں جب رواں برس مارچ کے مہینے میں کورونا وائرس نے دستک دی تو بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ یہ ان دیکھا دشمن معمولات زندگی کو یکسر تبدیل کرنے کے علاوہ پہلے سے ہی تباہ حال معیشت پر پھر سےناکارہ اثرات مرتب کرے گا۔
کووڈ 19 کی وبا نے ان تعلیم یافتہ خواتین کے کاروبار کی بنیادیں بھی ہلا دیں جنہوں نے بڑے حوصلے اور جرت مندی سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔ انہیں خواتین میں شامل ہیں سرینگر کے مضافاتی علاقے بمنہ سے تعلق رکھنے والی عالیہ ریاض۔
عالیہ نے مختلف مشکلات کو مات دیتے ہوئے جدید فیشن اور نرالے ڈیزائنز کے ملبوسات تیار کرنے کا ایک تجارتی یونٹ قائم کیا تھا۔ جس کے لئے انہوں نے مقامی کاریگروں کے علاوہ غیر مقامی کاریگروں کو بھی کام پر رکھا تھا۔ خواتین اور نوجوان لڑکیاں نہ صرف روزمرہ کے استعمال کے کپڑے عالیہ کے کارخانے سے سلوانے لگی تھیں بلکہ شادی بیاہ کی تقریبات اور دلہنوں کے لیے خصوصی ڈیزائن کردہ کپڑوں کی مانگ بھی بڑھنے لگی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے کورونا لاک ڈاؤن نے اس کے کام کاج پر منفی اثرات مرتب کر دئیے۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے بعد کتنی خواتین اپنے قائم کردہ تجارتی یونٹس بحال کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔