سرینگر: عید سے قبل جانوروں کی خریدو فروخت کے حوالے سے ہر جگہ منڈیاں لگائی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ یوم عرفہ تک جاری رہتا ہے۔ اس تعلق سے شہر سرینگر کے عیدگاہ سرینگر میں بھی قربانی کے جانوروں کی منڈی قائم کی گئ ہے۔ جہاں پر نہ صرف مقامی بلکہ غیر مقامی کاروباری قربانی کے جانور فروخت کرنے کےلئے پہنچے ہیں۔ عیدگاہ میں مخلتف قسم کے بھیڑ اور بکریاں دستیاب ہیں۔ جوکہ 330 سے 450 زندہ فی کلو کے حساب سے فروخت کیے جارہے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے عیدگاہ میں قائم منڈی کا دورہ کیا اور وہاں قربانی جانوروں کی خریداری کا جائزہ لیا اور گاہکوں کے علاوہ بھیڑ کاروباریوں کے ساتھ بھی بات چیت کی۔ اس موقع پر بھیڑ اور بکریاں فروخت کرنے والے افراد نے کہا کہ وادی کشمیر میں امسال گزشتہ برس کے مقابلے جانوروں کی خریداری کے تعلق سے کافی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لوگوں کے پاس نہ ہونے کی وجہ قوت خرید میں کمی دیکھی جارہی ہے۔ اگرچہ قربانی کے جانوروں کی قیمتیں بھی زیادہ نہیں ہے تاہم اس کے باوجود بھی خریداری میں نمایاں گراوٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان ایام کے دوران بازاروں میں جہاں کافی گہما گہمی دیکھنے کو ملتی تھی۔ وہیں قربانی کے جانوروں کی خریداری کے حوالے سے بھی لوگوں میں کافی جوش وخروش پایا جاتا تھا۔ لیکن ان دنوں ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ بازاروں میں قربانی کے لئے الگ الگ نسل کی بھیڑ بکریاں دستیاب تو ہیں لیکن خریدار نہ دارد۔ عید الالضحی سے قبل امور صارفین و عوامی تقسیم کاری محکمے نے قربانی جانوروں کی قمتیں مقرر کیا کرتے تھے لیکن حال ہی میں ایک فیصلہ کے تحت محکمے سے وہ اختیار چھین لیا گیا ہے اور اب وادی کشمیر میں بوچرز ایسوسی ایشن کے متعین کردہ قیمتوں کے مطابق مٹن فروخت کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: مہنگائی کی وجہ سے قربانی کے جانوروں کا کاروبار متاثر
ایسے میں لوگوں کا بھی مل جلا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے قیمتیں متعین نہیں ہے جس سے جو من چاہتا ہے اسی حساب سے وہ قربانی جانور فروخت کرتا ہے۔ عیدگا منڈی میں بھی دیگر مقامات کی طرح ہی الگ الگ ریٹ دیکھنے کو مل رہی ہے جس کے چلتے جانور خریدنے کے لئے آرہے گاہک پریشان ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چونکہ سی اے پی ڈی محکمے کو گوشت یا قربانی کے جانوروں کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار نہیں رہا۔ اب بازار میں من مانی قمیتں زیادہ ہی دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ اب یہ سارا معاملہ بے لگام ہوگیا ہے۔ ایسے میں عام لوگ جائے تو کہاں جائے اور کریں توکیا کریں-