ETV Bharat / state

بیٹے کی زبان سے ’ڈیڈی‘ سننے کے بعد کیوں رو پڑے محمد حنیف

ہر برس دسمبر مہینے کی تین تاریخ کو معذور افراد کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے، اس روز معذوروں کے حقوق خاص کر سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کے حوالہ سے آگاہی پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں، تاہم پیدائشی طور کسی بھی طرح سے کمزور یا معذور افراد کے والدین یا رشتہ داروں کو کس درد و کرب اور آزمائشوں، پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے ذوالقرنین زلفی نے سرینگر شہر سے تعلق رکھنے والے محمد حنیف کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔

بیٹے کی زبان سے ’ڈیڈی‘ سننے کے بعد کیوں رو پڑے محمد حنیف
بیٹے کی زبان سے ’ڈیڈی‘ سننے کے بعد کیوں رو پڑے محمد حنیف
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 4, 2023, 4:44 PM IST

Updated : Dec 4, 2023, 5:05 PM IST

بیٹے کی زبان سے ’ڈیڈی‘ سننے کے بعد کیوں رو پڑے محمد حنیف

سرینگر (جموں و کشمیر): سرینگر شہر سے تعلق رکھنے والا آٹھ سالہ محمد نعمان جو عام بچوں کے ساتھ کھیل کود رہا ہے، پیدائشی طور قوت سماعت سے تقریباً محروم تھا۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے ان کے والد محمد حنیف نے کہا کہ ان کے فرزند کی پیدائش کے وقت سننے کی صلاحیت صرف 10 فیصد تھی اور انہیں ’’اپنے لخت جگر کے لب سے پہلا لفظ سننے کے لیے چار برسوں کا طویل انتظار کرنا پڑا۔‘‘ آٹھ برس کے محمد نعمان کی قبل از وقت پیدائش ہوئی تھی جس وجہ سے اس کے والدین کو اس کا معمول کے برعکس زیادہ خیال رکھنا پڑا۔ کئی روز تک انکیوبیشن میں بھی بچے کو رکھنا پڑا۔ لیکن جب طویل عرصے تک نعمان نے کئی بات نہیں تو والدین کافی پریشان ہو گئے۔ جس کے بعد انہوں نے کئی ڈاکٹروں سے مشورہ لیا جس میں ایس ایم ایچ ایس اسپتال کے اُس وقت کے پرنسپل ڈاکٹر رفیق پانپوری بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا: ’’یہ جان کر کہ ہمارا لخت جگر قوت سماعت سے تقریباً محروم ہے، ہمارے سروں پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑی۔‘‘

ای ٹی وی بھارت کے بات گفتگو کے دوران ہوئے نعمان کے والد نے مزید کہا: ’’نعمان ہمارا بڑا بیٹا ہے اور جب یہ پتہ چلا کہ وہ 90 فیصد قوت سماعت سے محروم ہے تو ہماری آنکھیں بھر آئیں، تاہم میں نے اپنی اہلیہ کو دلاسہ دیا اور نہ صرف خود کو بلکہ اسے بھی اپنے فرزند کی دیکھ بھال اور علاج کے لیے ذہنی، جسمانی اور اقتصادی طور تیار کیا۔‘‘ حنیف کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی ماہرین سے مشورہ طلب کیا، چندی گڑھ اور دہلی بھی کئی سفر کیے اور ہر جگہ صرف ایک ہی مشورہ دیا گیا کہ ’’بچے کوکلیئر امپلانٹ سرجری Cochlear implant surgery سے گزرنا پڑے گا۔ سرجری کا نام تک ہی ہمارے لیے نیا تھا اس کے بارے میں زیادہ معلومات بھی نہیں تھی۔ تاہم مزید مشوروں اور انٹرنیٹ سے جانکاری حاصل کرنے کے بعد خود کو اس سرجری کے لیے تیار کیا، اور روپے جمع کرنے میں جٹ گئے۔‘‘

انہوں نے کہا کہا نعمان تب دو برس کے تھے جب ان کا علاج شروع ہوا اور چھ ماہ بعد کانوں میں مشین کے ذریعے اس نے پہلی بار آواز سنی۔ نعمان کے والد کہتے ہیں کہ ’’سرجری میں سات سے آٹھ لاکھ روپے کا خرچہ آیا۔ اور اس کے بعد لگاتار سپیچ تھیراپی کے کئی سیشن سے گزرنا پڑا۔ جب اس نے پہلی بار مشین کے ذریعے آواز سنی تو رو پڑا، شاید وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ اتنا خوفزدہ ہوا کہ ہمیں مشین ہی بند کرنی پڑی۔ تاہم کئی کوششوں اور محنت شاقہ کے بعد آہستہ آہستہ اس کو اس مشین کی عادت پڑ گئی۔‘‘ اپنے اور فرزند کے ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے حنیف کہتے ہیں کہ ’’بہت زیادہ مشقتوں کے بعد آج اب نعمان یہ سمجھ چکا ہے کہ مشین کب لگانی ہے اور کب باہر نکالنی ہے۔

’ڈیڈی‘ سن کر حنیف کیوں رو پڑے

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے حنیف کی آنکھیں بھر آئیں جب انہوں نے کہا: ’’سرجری کے دو سال بعد جب نعمان نے مجھے پہلی بار ’ڈیڈی‘ کہہ کر پکارا۔۔۔ میں وہ خوشی الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں رو پڑا تاہم وہ خوشی کے آنسو تھے۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ میں اپنے فرزند کی زبان سے ڈیڈی کا لفظ سن رہا ہوں۔‘‘

حنیف کہتے ہیں کہ نعمان کی قوت سماعت فی الوقت 60 فیصد ہے اور وہ ہر وہ کام بآسانی انجام دے سکتا ہے، دیگر بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے، اسکول کا کام انجام دیتا ہے اور مقامی نجی اسکول میں بھی اس کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نعمان کے والد نے نعمان کے لیے کسی مخصوص سکول کا انتخاب نہیں کیا بلکہ ایک مقامی نجی سکول میں اس کا داخلہ کرایا جہاں عام بچے پڑھا کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: World Disabled Day بڈگام میں عالمی یوم معذور کے موقعے پر تقریب

اپنے فرزند کے معصوم سوالات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حنیف کا کہنا تھا کہ ’’نعمان اکثر پوچھتا ہے کہ وہ دوسرے بچوں سے الگ کیوں ہے؟ اس کے چھوٹے بھائی اور کلاس کے دیگر بچوں کے کانوں پر یہ مشین کیوں نہیں لگی ہے؟ ایسے سوال وہ گزشتہ ایک برس سے کر رہا ہے اور ہم اس کو تمام باتیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ بھی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک بار بارش کے دوران اس کی مشین بھیگ گئی جس سے اس کو کرنٹ لگی تب سے اس نے سمجھ لیا کہ بارش یا پانی سے مشین کو بچانا ہے، وہ خود ہی احتیاط برتتا ہے۔‘‘

بیٹے کی زبان سے ’ڈیڈی‘ سننے کے بعد کیوں رو پڑے محمد حنیف

سرینگر (جموں و کشمیر): سرینگر شہر سے تعلق رکھنے والا آٹھ سالہ محمد نعمان جو عام بچوں کے ساتھ کھیل کود رہا ہے، پیدائشی طور قوت سماعت سے تقریباً محروم تھا۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے ان کے والد محمد حنیف نے کہا کہ ان کے فرزند کی پیدائش کے وقت سننے کی صلاحیت صرف 10 فیصد تھی اور انہیں ’’اپنے لخت جگر کے لب سے پہلا لفظ سننے کے لیے چار برسوں کا طویل انتظار کرنا پڑا۔‘‘ آٹھ برس کے محمد نعمان کی قبل از وقت پیدائش ہوئی تھی جس وجہ سے اس کے والدین کو اس کا معمول کے برعکس زیادہ خیال رکھنا پڑا۔ کئی روز تک انکیوبیشن میں بھی بچے کو رکھنا پڑا۔ لیکن جب طویل عرصے تک نعمان نے کئی بات نہیں تو والدین کافی پریشان ہو گئے۔ جس کے بعد انہوں نے کئی ڈاکٹروں سے مشورہ لیا جس میں ایس ایم ایچ ایس اسپتال کے اُس وقت کے پرنسپل ڈاکٹر رفیق پانپوری بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا: ’’یہ جان کر کہ ہمارا لخت جگر قوت سماعت سے تقریباً محروم ہے، ہمارے سروں پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑی۔‘‘

ای ٹی وی بھارت کے بات گفتگو کے دوران ہوئے نعمان کے والد نے مزید کہا: ’’نعمان ہمارا بڑا بیٹا ہے اور جب یہ پتہ چلا کہ وہ 90 فیصد قوت سماعت سے محروم ہے تو ہماری آنکھیں بھر آئیں، تاہم میں نے اپنی اہلیہ کو دلاسہ دیا اور نہ صرف خود کو بلکہ اسے بھی اپنے فرزند کی دیکھ بھال اور علاج کے لیے ذہنی، جسمانی اور اقتصادی طور تیار کیا۔‘‘ حنیف کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی ماہرین سے مشورہ طلب کیا، چندی گڑھ اور دہلی بھی کئی سفر کیے اور ہر جگہ صرف ایک ہی مشورہ دیا گیا کہ ’’بچے کوکلیئر امپلانٹ سرجری Cochlear implant surgery سے گزرنا پڑے گا۔ سرجری کا نام تک ہی ہمارے لیے نیا تھا اس کے بارے میں زیادہ معلومات بھی نہیں تھی۔ تاہم مزید مشوروں اور انٹرنیٹ سے جانکاری حاصل کرنے کے بعد خود کو اس سرجری کے لیے تیار کیا، اور روپے جمع کرنے میں جٹ گئے۔‘‘

انہوں نے کہا کہا نعمان تب دو برس کے تھے جب ان کا علاج شروع ہوا اور چھ ماہ بعد کانوں میں مشین کے ذریعے اس نے پہلی بار آواز سنی۔ نعمان کے والد کہتے ہیں کہ ’’سرجری میں سات سے آٹھ لاکھ روپے کا خرچہ آیا۔ اور اس کے بعد لگاتار سپیچ تھیراپی کے کئی سیشن سے گزرنا پڑا۔ جب اس نے پہلی بار مشین کے ذریعے آواز سنی تو رو پڑا، شاید وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ اتنا خوفزدہ ہوا کہ ہمیں مشین ہی بند کرنی پڑی۔ تاہم کئی کوششوں اور محنت شاقہ کے بعد آہستہ آہستہ اس کو اس مشین کی عادت پڑ گئی۔‘‘ اپنے اور فرزند کے ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے حنیف کہتے ہیں کہ ’’بہت زیادہ مشقتوں کے بعد آج اب نعمان یہ سمجھ چکا ہے کہ مشین کب لگانی ہے اور کب باہر نکالنی ہے۔

’ڈیڈی‘ سن کر حنیف کیوں رو پڑے

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے حنیف کی آنکھیں بھر آئیں جب انہوں نے کہا: ’’سرجری کے دو سال بعد جب نعمان نے مجھے پہلی بار ’ڈیڈی‘ کہہ کر پکارا۔۔۔ میں وہ خوشی الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں رو پڑا تاہم وہ خوشی کے آنسو تھے۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ میں اپنے فرزند کی زبان سے ڈیڈی کا لفظ سن رہا ہوں۔‘‘

حنیف کہتے ہیں کہ نعمان کی قوت سماعت فی الوقت 60 فیصد ہے اور وہ ہر وہ کام بآسانی انجام دے سکتا ہے، دیگر بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے، اسکول کا کام انجام دیتا ہے اور مقامی نجی اسکول میں بھی اس کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نعمان کے والد نے نعمان کے لیے کسی مخصوص سکول کا انتخاب نہیں کیا بلکہ ایک مقامی نجی سکول میں اس کا داخلہ کرایا جہاں عام بچے پڑھا کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: World Disabled Day بڈگام میں عالمی یوم معذور کے موقعے پر تقریب

اپنے فرزند کے معصوم سوالات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حنیف کا کہنا تھا کہ ’’نعمان اکثر پوچھتا ہے کہ وہ دوسرے بچوں سے الگ کیوں ہے؟ اس کے چھوٹے بھائی اور کلاس کے دیگر بچوں کے کانوں پر یہ مشین کیوں نہیں لگی ہے؟ ایسے سوال وہ گزشتہ ایک برس سے کر رہا ہے اور ہم اس کو تمام باتیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ بھی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک بار بارش کے دوران اس کی مشین بھیگ گئی جس سے اس کو کرنٹ لگی تب سے اس نے سمجھ لیا کہ بارش یا پانی سے مشین کو بچانا ہے، وہ خود ہی احتیاط برتتا ہے۔‘‘

Last Updated : Dec 4, 2023, 5:05 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.