شیو سینا نے ماؤتھ پیس'سامنا' میں ایڈیٹویل شائع کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے: '28 ارکان پر مشتمل یورپی یونین وفد حالات کا جائزہ لینے کے لیے کشمیر میں ہے۔ کشمیر ہمارے ملک کا داخلی معاملہ ہے۔ کشمیر میں قومی پرچم لہرایا جا رہا ہے۔ ہمیں نریندر مودی اور امت شاہ پر فخر ہے۔ لیکن اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو بیرونی وفد کو کشمیر کیوں بھجوایا گیا؟ کیا کشمیر ہمارا داخلی معاملہ نہیں ہے؟'۔
ایڈیٹوریل میں کہا گیا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی ہے کہ اقوام متحدہ مداخلت کرے لیکن آپ ہی ایک وفد کو کشمیر بھیج رہے ہیں۔ غیر ملکی افراد کو کشمیر بھیج دینا حقوق آزادی پر حملہ ہے جس سے سنجیدہ سوالات پیدا ہو رہے ہیں'۔
ماؤتھ پیس'سامنا' کے ایڈیٹویل میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ کو اس کی جواب دہی دینی ہو گی کہ انہوں نے غیر ملکی وفد کو کشمیر جانے کی اجازت کیسے دی گئی، جبکہ بھارتی پارلیمان کے ارکان کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے'۔ شیو سینا نے دعویٰ کیا ہے کہ 'یورپی قانون سازوں کا کشمیر دورے سے حزب مخالف جماعتیں کو سوالات کھڑے کرنے کا موقع مل سکتا ہے'۔
یورپی یونین وفد کا کشمیر دورے کے متعلق ایڈیٹویل اس وقت شائع کیا گیا جب منگل کے روز مہارشٹرا کے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شیو سینا بی جے پی کو نشانہ بنا رہی ہے، جس سے وہ نالاں ہیں۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے پانچ اگست کو جموں وکشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات منسوخ کر کے اور دو یونین ٹریٹریز میں تبدیل کیا گیا۔جس کے بعد یہ کسی بھی غیر سرکاری و غیر ملکی وفد کا پہلا دورہ کشمیر ہے'۔
ملک کی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریس نے یورپی اراکین پارلیمان کے دورہ کشمیر پر سوال اٹھائے ہیں۔
کانگریس کا کہنا ہے کہ جب ملک کے سیاستدانوں کو جموں وکشمیر میں لوگوں سے نہیں ملنے دیا جارہا تو یورپی پارلیمان کے اراکین کو اس کی اجازت کیونکر دی گئی۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش کے مطابق یہ ملک کی پارلیمان اور جمہوریت کی توہین ہے۔
مرکزی حکومت نے ایک امریکی سفیر کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی تھی،
ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر آنے والے یورپی پارلیمان کے تین اراکین کو چھوڑ کر باقی سب کا تعلق یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے۔ وہ مبینہ طور پر اسلام مخالف بیان بازی کے لیے بھی مشہور ہیں۔