ETV Bharat / state

'موت کورونا سے ہوئی یا وجہ کچھ اور تھی، جانچ ہونی چاہیے'

ڈاکٹر سلیم نے کہا لاک ڈاؤن کے دوران لوگ کافی حد تک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے تھے۔ لیکن جب سے لاک ڈاؤن میں نرمی برتی گئی تب سے عوام میں کورونا وائرس کا خوف آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔

WHETHER PATIENT DIED DUE TO CORONA OR NOT NEEDS TO BE INVESTIGATED: DR. MOHAMMAD SALIM
'موت کورونا سے ہوئی یا وجہ کچھ اور تھی، اسکی جانچ ہونی چائیے'
author img

By

Published : Jul 6, 2020, 2:14 PM IST

Updated : Jul 6, 2020, 2:38 PM IST

گورنمنٹ میدیکل کالج - سرینگر میں کمیونٹی میڈیسن شعبے کے سربراہ ڈاکٹر محمد سلیم خان جو کہ میڈیکل کالج سے منسلک اہسپتالوں کے کووڈ 19 نوڈل افسر بھی ہے کا کہنا ہے کہ اگر جموں وکشمیر میں کورونا ٹیسٹ کی تعداد بڑھا دی جائے گی تو آنے والے وقت میں کورونا مریضوں کی تعداد میں مزید ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

'موت کورونا سے ہوئی یا وجہ کچھ اور تھی، جانچ ہونی چائیے'

انہوں نے کہا کہ بھارت میں اس وقت دیگر ممالک کی نسبت کورونا ٹیسٹ کافی کم کئے جارہے ہیں۔ ملک میں اگرچہ تعداد کے اعتبار سے کوروناوائرس ٹسٹ زیادہ کئے جاتے ہیں لیکن آبادی کے حساب سے تشخیص کا عمل حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ان باتوں کا اظہار ڈاکٹر محمد سلیم خان نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خاص بات چیت کے دوران کیا۔
ڈاکٹر محمد سلیم نے کہا کہ وادی کشمیر میں گزشتہ دنوں سےکوروناوائرس متاثرین اور مہلوکین کی تعداد میں اضافہ ہونا قابل تشویش اور قابل فکر بات ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جن مریضوں کی موت واقع ہوئی ان میں اکثر پہلے ہی کسی دوسرے عارضے میں مبتلا تھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان افراد میں وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے مزید پیچیدگیاں بڑھ رہی تھی۔ بعد میں پھر نمونیا یا دیگر وجوہات کی بنا پر متاثرین کی موت ہوتی ہے۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کچھ دنوں سے سڑک کے حادثے، درخت سے گرنے یا کسی دیگر واقعہ سے ہلاک ہونے والوں کو بھی کووڈ-19 کے ہی کھاتے میں کیوں ڈالا جارہا ہے۔ تو انہوں نے اس کے ردعمل میں کہا واقعی یہ ایک تحقیق کا معاملہ ہے۔ حکومت کو چائیے کہ وہ اس پر ایک چانچ کمیٹی تشکیل دے جو اس طرح کی اموات کی اصل وجہ بتائے کہ آیا۔

حال ہی میں سڑک حادثے کے دوران شدید زخمی ہوئے نوجوان کی موت کے بارے میں انہوں نے کہا مزکورہ شخص کو شدید زخمی حالت میں اہسپتال پہچایا گیا تھا اور بعد میں جب اس کا کورونا ٹیسٹ مثبت پایا گیا تو اس کو سی ڈی اہسپتال منتقل کیا گیا۔

ڈاکٹروں کی لاپرواہی پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں میڈیکل کالج سے منسلک اہسپتالوں کے کووڈ 19 نوڈل افسر کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات کو مدنظر رکھکر منتخب کووڈ اہسپتالوں میں بھی ملٹی سپیشیلٹی سہولیات دستیاب رکھنے کی بے حد ضرورت ہے تاکہ بروقت اور صیحی علاج سے ایسی اموات کو روکا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگ کافی حد تک کوروناوائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے تھے۔ لیکن جب سے لاک ڈاؤن میں نرمی برتی گئی ہے تب سے لوگوں میں کوروناوائرس کا خوف آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔
لوگ گھر سے نکلنے کے دوران نہ تو سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی اکثر لوگ ماسک پہنتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وادی کشمیر میں کورونا متاثرین کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ انتظامیہ اور صحت ماہرین کی جانب سے وضح کئے گئے رہنما خطوط اور احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔ بصورت دیگر جموں و کشمیر کی صورتحال بھی راجدھانی دہلی جیسی ہو گی جہاں اس وقت کووڈ 19 مریضوں کے لیے اہسپتالوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے۔

گورنمنٹ میدیکل کالج - سرینگر میں کمیونٹی میڈیسن شعبے کے سربراہ ڈاکٹر محمد سلیم خان جو کہ میڈیکل کالج سے منسلک اہسپتالوں کے کووڈ 19 نوڈل افسر بھی ہے کا کہنا ہے کہ اگر جموں وکشمیر میں کورونا ٹیسٹ کی تعداد بڑھا دی جائے گی تو آنے والے وقت میں کورونا مریضوں کی تعداد میں مزید ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

'موت کورونا سے ہوئی یا وجہ کچھ اور تھی، جانچ ہونی چائیے'

انہوں نے کہا کہ بھارت میں اس وقت دیگر ممالک کی نسبت کورونا ٹیسٹ کافی کم کئے جارہے ہیں۔ ملک میں اگرچہ تعداد کے اعتبار سے کوروناوائرس ٹسٹ زیادہ کئے جاتے ہیں لیکن آبادی کے حساب سے تشخیص کا عمل حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ان باتوں کا اظہار ڈاکٹر محمد سلیم خان نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خاص بات چیت کے دوران کیا۔
ڈاکٹر محمد سلیم نے کہا کہ وادی کشمیر میں گزشتہ دنوں سےکوروناوائرس متاثرین اور مہلوکین کی تعداد میں اضافہ ہونا قابل تشویش اور قابل فکر بات ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جن مریضوں کی موت واقع ہوئی ان میں اکثر پہلے ہی کسی دوسرے عارضے میں مبتلا تھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان افراد میں وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے مزید پیچیدگیاں بڑھ رہی تھی۔ بعد میں پھر نمونیا یا دیگر وجوہات کی بنا پر متاثرین کی موت ہوتی ہے۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کچھ دنوں سے سڑک کے حادثے، درخت سے گرنے یا کسی دیگر واقعہ سے ہلاک ہونے والوں کو بھی کووڈ-19 کے ہی کھاتے میں کیوں ڈالا جارہا ہے۔ تو انہوں نے اس کے ردعمل میں کہا واقعی یہ ایک تحقیق کا معاملہ ہے۔ حکومت کو چائیے کہ وہ اس پر ایک چانچ کمیٹی تشکیل دے جو اس طرح کی اموات کی اصل وجہ بتائے کہ آیا۔

حال ہی میں سڑک حادثے کے دوران شدید زخمی ہوئے نوجوان کی موت کے بارے میں انہوں نے کہا مزکورہ شخص کو شدید زخمی حالت میں اہسپتال پہچایا گیا تھا اور بعد میں جب اس کا کورونا ٹیسٹ مثبت پایا گیا تو اس کو سی ڈی اہسپتال منتقل کیا گیا۔

ڈاکٹروں کی لاپرواہی پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں میڈیکل کالج سے منسلک اہسپتالوں کے کووڈ 19 نوڈل افسر کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات کو مدنظر رکھکر منتخب کووڈ اہسپتالوں میں بھی ملٹی سپیشیلٹی سہولیات دستیاب رکھنے کی بے حد ضرورت ہے تاکہ بروقت اور صیحی علاج سے ایسی اموات کو روکا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگ کافی حد تک کوروناوائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے تھے۔ لیکن جب سے لاک ڈاؤن میں نرمی برتی گئی ہے تب سے لوگوں میں کوروناوائرس کا خوف آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔
لوگ گھر سے نکلنے کے دوران نہ تو سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی اکثر لوگ ماسک پہنتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وادی کشمیر میں کورونا متاثرین کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ انتظامیہ اور صحت ماہرین کی جانب سے وضح کئے گئے رہنما خطوط اور احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔ بصورت دیگر جموں و کشمیر کی صورتحال بھی راجدھانی دہلی جیسی ہو گی جہاں اس وقت کووڈ 19 مریضوں کے لیے اہسپتالوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے۔

Last Updated : Jul 6, 2020, 2:38 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.