امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍدو روزہ دورہ بھارت کے دوران ایک بار پھر بھارت اور پاکستان کشیدگی ختم کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ امریکی صدر نے جہاں دونوں ممالک (بھارت اور پاکستان) کے درمیان تلخی اور کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر قرار دیا وہیں انہوں نے کہا کہ 'مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے دونوں کے درمیان مصالحت کی پیشکش کے لیے میں تیار ہوں۔'
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'بھارت اور پاکستان کشیدگی کے خاتمے کے لیے ثالثی کے لیے میں جو کچھ مدد کر سکتا ہوں ضرور کروں گا۔'
وہیں امریکی صدر کے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے کردار پر بات کرتے ہوئے وادی کے سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ صدر ٹرمپ کی بار بار اس حوالے سے پیشکش کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ہے کیونکہ بھارت تیسرے فریق کی ثالثی سے کئی بار انکار کر چکا ہے۔
امریکی صدر نے شدت پسندی پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، تاہم جموں و کشمیر کی آئینی حثیت ختم کیے جانے کے تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر نے کہا کہ میں یہ معاملہ بھارت پر چھوڑتا ہوں۔'
بین الاقوامی سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے کشمیری صحافیوں کا کہنا ہے کہ 'امریکی صدر کا بھارت اور پاکستان کے سربراہان کی تعریف کرنا اور آپسی کشیدگی کو ختم کرنے پر زور دینا ایک طرح کی مجبوری ہے کیونکہ ان دونوں ممالک سے امریکہ کے مفاد جڑے ہوئے ہیں۔'
امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہارکرنے پر وادی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 'اگر کسی تیسرے ملک کی ثالثی سے کشمیر تنازع کا حل ممکن اور دونوں ہمسایوں کے درمیان بہتر تعلقات قائم ہوسکتے ہیں تو یہ نہ صرف بر صغیر کی کروڑوں عوام کے لیے بلکہ کشمیریوں کے لیے ایک خوش آئند بات ہوگی۔
واضح رہے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت کا دو روزہ دورہ منگل کو اختتام پذیر ہوا۔