ETV Bharat / state

Walnut Harvesting season in Kashmir کشمیر میں اخروٹ اتارنے کا سیزن جہاں روزگار کا باعث، وہیں پُرخطرناک بھی

اخروٹ توڑنے والا شخص 60 سے 80 فُٹ کی اونچائی پر چڑھ کر لکڑی کے ڈنڈے سے اخروٹ توڑنے کا خطرہ مول لیتا ہے۔ اس عمل کے دوران توازن کھونے یا پاؤں پھسل کر گرجانے کا اندیشہ رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کام کے دوران ابھی تک سینکڑوں افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے اور متعدد افراد معذور ہوگئے ہیں۔

walnut-harvesting-season-in-kashmir-is-a-source-of-employment-but-also-dangerous-one
کشمیر میں اخروٹ اتارنے کا سیزن جہاں روزگار کا باعث، وہیں پُرخطرناک بھی
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 5, 2023, 5:09 PM IST

سرینگر: وادی کشمیر میں اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنے کا سیزن جوبن پر ہے اور اس سے وابستہ بیوپاری اور مزدور اپنے کام کے ساتھ انتہائی مصروف نظر آ رہے ہیں۔

اس سیزن کے دوران اگرچہ مزدوروں کی روزی روٹی کی سبیل پیدا ہوجاتی ہے، تاہم بعض بدقسمت گھروں کے لئے یہ سیزن باعث مصیبت بھی بن جاتا ہے کیونکہ ہر سال کئی مزدور اخروٹ اتارنے کے دوران درختوں سے گر یا تو جان بحق ہو جاتے ہیں یا عمر بھر کے لئے ناخیز ہو کر اپنے گھر والوں پر ہی بھاری بھر کم بوجھ بن جاتے ہیں۔

اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنا جہاں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے، وہیں ایک ایسا جوکھم بھرا کام ہے جس میں اس کام کے کرنے والے کو جان گنوانے کا خطرہ ہر آن لگا رہتا ہے۔ اخروٹ کے درخت دیگر پھل کے درختوں جیسے سیب، ناشپاتی، انار، وغیرہ سے قد وقامت میں بڑے ہوتے ہیں اور ان سے اخروٹ اتارنے کا عمل بھی مذکورہ پھل اتارنے کے کاموں سے بھی مختلف ہے۔

سیب، ناشپاتی وغیرہ جیسے درختوں سے ایک عام مزدور بھی میوے اتار سکتا ہے اور ان درختوں پر چڑھ کر گرنے کا بھی کوئی خاص خطرہ لاحق نہیں ہوتا ہے لیکن اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اخروٹ اتارنے کے کام میں خال کوئی مزدور ہی مہارت رکھتا ہے اس کام میں مہارت کے ساتھ ساتھ مزدور کا ہوشیار، بیدار مغز اور بہادر ہونا بھی شرط اول ہے۔ اس کام کا ماہر ایک لمبا سا ڈندا اٹھائے درخت کی ایک مضبوط شاخ پر بیٹھ کر زور زور سے باقی شاخوں کو مارتا ہے جس سے ان پر لگے اخروٹ نیچے گر جاتے ہیں اور اس دوران ایسا بھی ہوتا ہے کہ توزان یا توجہ کھو جانے کے ساتھ ہی مزدور خود بھی اخروٹوں کے ساتھ نیچے گر جاتا ہے۔

وسطی ضلع بڈگام کے پارس آباد سے تعلق رکھنے والے علی محمد نامی ایک بیوپاری نے بتایا کہ ہم ایسے مزدروں کو زیادہ سے زیادہ مزدوری دیتے ہیں اور وہ بھی پیشگی ہی ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہر گزرتے سال ان مزدوروں کا ملنا محال بن جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسے مزدور بالکل نہیں ملیں گے جس سے یہ کاروبار ختم ہو سکتا ہے۔ آج کل اگر کوئی مزدور ملتا ہے وہ کسی مجبوری کے تحت ہی ایسا کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔

موصوف نے کہا کہ جس طرح فصل کٹائی اور دیگر کاموں کے لئے مشینوں کو استعمال کیا جا رہا ہے اسی طرح اس کام کی انجام دہی کے لئے بھی کسی مشین کو متعارف کیا جانا چاہیے۔

محمد یوسف خان نامی ایک مزدور نے بتایا کہ میں درختوں سے اخروٹ اتارنے کا کام گزشتہ کئی سالوں سے کر رہا ہوں لیکن میرے گھر والے مجھ سے کافی ناراض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'شادی پر بیوپاری سے قرضہ لیا تھا اور اس نے یہی کام کرنے کی شرط پر قرضہ دیا تھا اب اس سال قرضے کی بھرپائی ہوگی تو اگلے سال سے یہ کام نہیں کروں گا'۔

منظور احمد نامی ایک اخروٹ باغ مالک نے کہا کہ متعلقہ محکمے کی طرف سے کسانوں کو چھوٹے قد والے درخت بھی فراہم کیے جا رہے ہیں جن سے اخروٹ اتارنا آسان بھی ہے اور خطرہ بھی کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ان درختوں کے اخروٹ معیاری بھی ہیں اور پیداوار بھی اچھی ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: اننت ناگ: وادی میں اخروٹ توڑنے کا سیزن عروج پر، تاجر پریشان

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے متعلق کسانوں کو یا تو جانکاری کم ہے یا وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں'۔انہوں نے کہا کہ بلگیریا ٹائپ کے اخروٹ درخت دستیاب ہیں جن کو لگا کر ایک کسان کی اچھی آمدنی ہوسکتی ہے۔موصوف نے کہا کہ ایک کنال اراضی پر کم سے کم بار اس قسم کے اخروٹ درخت لگائے جاسکتے ہیں جن کی دیکھ ریکھ کے لئے سیب کے درختوں جیسی محنت بھی درکار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ چار کنال اراضی پر ان اخروٹ درختوں کا باغ لگانے سے اچھی خاصی کمائی کی جاسکتی۔

چرار شریف سے تعلق رکھنے والے محمد امین نامی ایک کسان نے بتایا کہ اس قسم کے درخت شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی کی طرف سے دستیاب رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر سال ماہ فروری میں اسٹال لگتے ہیں جہاں سے کسان ان کو خرید کر اپنے باغوں میں لگا سکتے ہیں۔ دو تین کنال زمین پر ایسے درخت لگانے سے اچھی خاصی کمائی کی جاسکتی۔

(یو این آئی)

سرینگر: وادی کشمیر میں اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنے کا سیزن جوبن پر ہے اور اس سے وابستہ بیوپاری اور مزدور اپنے کام کے ساتھ انتہائی مصروف نظر آ رہے ہیں۔

اس سیزن کے دوران اگرچہ مزدوروں کی روزی روٹی کی سبیل پیدا ہوجاتی ہے، تاہم بعض بدقسمت گھروں کے لئے یہ سیزن باعث مصیبت بھی بن جاتا ہے کیونکہ ہر سال کئی مزدور اخروٹ اتارنے کے دوران درختوں سے گر یا تو جان بحق ہو جاتے ہیں یا عمر بھر کے لئے ناخیز ہو کر اپنے گھر والوں پر ہی بھاری بھر کم بوجھ بن جاتے ہیں۔

اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنا جہاں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے، وہیں ایک ایسا جوکھم بھرا کام ہے جس میں اس کام کے کرنے والے کو جان گنوانے کا خطرہ ہر آن لگا رہتا ہے۔ اخروٹ کے درخت دیگر پھل کے درختوں جیسے سیب، ناشپاتی، انار، وغیرہ سے قد وقامت میں بڑے ہوتے ہیں اور ان سے اخروٹ اتارنے کا عمل بھی مذکورہ پھل اتارنے کے کاموں سے بھی مختلف ہے۔

سیب، ناشپاتی وغیرہ جیسے درختوں سے ایک عام مزدور بھی میوے اتار سکتا ہے اور ان درختوں پر چڑھ کر گرنے کا بھی کوئی خاص خطرہ لاحق نہیں ہوتا ہے لیکن اخروٹ کے درختوں سے اخروٹ اتارنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اخروٹ اتارنے کے کام میں خال کوئی مزدور ہی مہارت رکھتا ہے اس کام میں مہارت کے ساتھ ساتھ مزدور کا ہوشیار، بیدار مغز اور بہادر ہونا بھی شرط اول ہے۔ اس کام کا ماہر ایک لمبا سا ڈندا اٹھائے درخت کی ایک مضبوط شاخ پر بیٹھ کر زور زور سے باقی شاخوں کو مارتا ہے جس سے ان پر لگے اخروٹ نیچے گر جاتے ہیں اور اس دوران ایسا بھی ہوتا ہے کہ توزان یا توجہ کھو جانے کے ساتھ ہی مزدور خود بھی اخروٹوں کے ساتھ نیچے گر جاتا ہے۔

وسطی ضلع بڈگام کے پارس آباد سے تعلق رکھنے والے علی محمد نامی ایک بیوپاری نے بتایا کہ ہم ایسے مزدروں کو زیادہ سے زیادہ مزدوری دیتے ہیں اور وہ بھی پیشگی ہی ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہر گزرتے سال ان مزدوروں کا ملنا محال بن جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسے مزدور بالکل نہیں ملیں گے جس سے یہ کاروبار ختم ہو سکتا ہے۔ آج کل اگر کوئی مزدور ملتا ہے وہ کسی مجبوری کے تحت ہی ایسا کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔

موصوف نے کہا کہ جس طرح فصل کٹائی اور دیگر کاموں کے لئے مشینوں کو استعمال کیا جا رہا ہے اسی طرح اس کام کی انجام دہی کے لئے بھی کسی مشین کو متعارف کیا جانا چاہیے۔

محمد یوسف خان نامی ایک مزدور نے بتایا کہ میں درختوں سے اخروٹ اتارنے کا کام گزشتہ کئی سالوں سے کر رہا ہوں لیکن میرے گھر والے مجھ سے کافی ناراض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'شادی پر بیوپاری سے قرضہ لیا تھا اور اس نے یہی کام کرنے کی شرط پر قرضہ دیا تھا اب اس سال قرضے کی بھرپائی ہوگی تو اگلے سال سے یہ کام نہیں کروں گا'۔

منظور احمد نامی ایک اخروٹ باغ مالک نے کہا کہ متعلقہ محکمے کی طرف سے کسانوں کو چھوٹے قد والے درخت بھی فراہم کیے جا رہے ہیں جن سے اخروٹ اتارنا آسان بھی ہے اور خطرہ بھی کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ان درختوں کے اخروٹ معیاری بھی ہیں اور پیداوار بھی اچھی ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: اننت ناگ: وادی میں اخروٹ توڑنے کا سیزن عروج پر، تاجر پریشان

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے متعلق کسانوں کو یا تو جانکاری کم ہے یا وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں'۔انہوں نے کہا کہ بلگیریا ٹائپ کے اخروٹ درخت دستیاب ہیں جن کو لگا کر ایک کسان کی اچھی آمدنی ہوسکتی ہے۔موصوف نے کہا کہ ایک کنال اراضی پر کم سے کم بار اس قسم کے اخروٹ درخت لگائے جاسکتے ہیں جن کی دیکھ ریکھ کے لئے سیب کے درختوں جیسی محنت بھی درکار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ چار کنال اراضی پر ان اخروٹ درختوں کا باغ لگانے سے اچھی خاصی کمائی کی جاسکتی۔

چرار شریف سے تعلق رکھنے والے محمد امین نامی ایک کسان نے بتایا کہ اس قسم کے درخت شیر کشمیر زرعی یونیورسٹی کی طرف سے دستیاب رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر سال ماہ فروری میں اسٹال لگتے ہیں جہاں سے کسان ان کو خرید کر اپنے باغوں میں لگا سکتے ہیں۔ دو تین کنال زمین پر ایسے درخت لگانے سے اچھی خاصی کمائی کی جاسکتی۔

(یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.