رواں مہینے کی 16 تاریخ کو وی پی این مینٹر (vpnmentor) نامی ایک ریسرچ کمپنی نے رپورٹ شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بعض وی پی این ایپلیکیشنز نے (بشمول کشمیر) صارفین کی ذاتی معلومات کو منظر عام پر لایا ہے۔
وی پی این مینٹر نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ’’ہانگ کانگ سے کام کرنے والی وی پی این کمپنیوں نے لاکھوں صارفین کی ذاتی معلومات منظر عام پر لائی ہیں۔ اور یہ سب معلومات صارفین کے فون سے چرائی گئی ہیں۔‘‘
وی پی این مینٹر نے ان کمپنیوں کا نام لیتے ہوئے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’یو ایف او، فاسٹ، فری، سپر، فلیش، سکور اور ریبٹ نے صارفین کی ذاتی معلومات چرائی ہیں۔ ان وی پی این میں سے زیادہ تر استعمال کشمیر میں مواصلاتی نظام پر قدغن کے دوران ہوا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ برس پانچ اگست کو بھاجپا سرکار کی جانب سے دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کرکے عوامی نقل و حرکت پر پابندی عائد کی تھی، وہیں مواصلاتی نظام کو بھی پوری طرح معطل کر دیا گیا تھا۔ تاہم رواں برس جنوری کے مہینے میں سست رفتار انٹرنیٹ کو بحال کرکے لاکھوں ویب سائٹس بشمول سماجی رابطے کی اپیس پر پابندی برقرار رکھی گئی۔ ممنوعہ ایپس اور ویب سائٹس تک رسائی کے لیے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کا استعمال عام ہوا اور وادی میں وی پی این کافی مقبول ہوئے۔
قابل ذکر ہے کہ انتظامیہ اور ماہرین کی جانب سے عوام سے مسلسل گزارش کی گئی تھی کہ وی پی این کے استعمال سے پرہیز کیا جائے کیونکہ ’’یہ اپلیکیشن آپ کو کالعدم ویب سائٹ تک رسائی دینے کے ساتھ ساتھ آپ کی ذاتی معلومات کو غیر محفوظ بناتے ہیں۔‘‘ انتباہ کے باوجود وی پی این کا استعمال کم نہیں ہوا کیونکہ ’’عوام کے پاس متبادل راستہ نہیں تھا۔‘‘
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پوری دنیا سے تقریبا 20 لاکھ صارفین کی معلومات چرانے کے بعد اسے منظر عام پر لائی گئیں۔ اعداد وشمار کے مطابق تقریبا 1.2 TB ڈاٹا چوری ہوا ہے۔
ریسرچرس کے مطابق ’’یہ وی پی این کمپنیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ صارفین کی کوئی بھی جانکاری اپنے سرور (Server) میں محفوظ نہیں رکھتیں۔ جیسے ہی وہ لاگ آؤٹ کرتے ہیں ان کی تمام معلومات ڈیلیٹ کر دی جاتی ہیں۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ گوگل پلے اسٹور اور ایپل ایپ سٹور پر بھی ان وی پی این کمپنیوں کو اچھی ریٹنگ ملی ہے۔‘‘