بیرون ریاستوں/مرکزی زیر انتظام علاقوں سے خرید کر کشمیر لائی گئی گاڑیوں کے دوبارہ اندراج کے حوالے سے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں زیر سماعت عرضی پر جمرات کے روز تیسری سنوائی ہوئی۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی میں سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر یہ اقدام ضروری ہے۔
جسٹس علی محمد ماگرے کی صدارت والی بینچ نے گزشتہ سماعت کے دوران انتظامیہ سے اس معاملے پر جواب طلب کیا تھا۔ بینچ کا ماننا تھا کہ کشمیر کے ریجنل ٹرانسپورٹ آفیسر کی جانب سے جاری کیا گیا حکمنامہ موٹر وہیکل ایکٹ کے سیکشن 47 کی خلاف ورزی کرتا ہے، اس لیے انتظامیہ کو اس تعلق سے وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔
جمعرات کو انتظامیہ نے گزشتہ مہینے کی 27تاریخ کو ریجنل ٹرانسپورٹ آفیسر کی جانب سے جاری کیے گئے سرکیولر کی ایڈوکیٹ جنرل دی سی رینا کے ذریعے وضاحت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’’جاری کیا گیا سرکیولر موٹر وہیکل ایکٹ 1988کے سیکشن 47 اور 50 کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔‘‘
تفصیلی جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’جموں و کشمیر کی موجودہ حفاظتی صورتحال، گاڑیوں کی آمد رفت پر قدغن لگانے اور ریوینیو حاصل کرنے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’گاڑیوں کی چوری کی واردات میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس لیے گاڑیوں کا اندراج ضروری ہے۔ جو گاڑیاں ضبط کی گئی ہیں اس کی وجہ بھی یہی تھی کی ڈرائیور / مالکان کے پاس تمام دستاویز نہیں تھے۔‘‘
دوبارہ اندراج کرتے وقت گاڑی مالکان کو ڈبل ٹیکس ادا کرنا ہوگا؟ اس بات کا انکار کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’گاڑی کی بچی مدت کا ہی ٹیکس ادہ کرنا ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق بھارت کا کوئی بھی شہری 12 مہینوں تک جموں و کشمیر کی سڑکوں کا استعمال کر سکتا ہے بس شرط یہ ہے کہ اس نے اپنا مستقل پتہ تبدیل نہ کیا ہو۔ اگر کوئی جموں و کشمیر کا باشندہ بیرون ریاست سے گاڑی درآمد کرتا ہے تو اس کو 7 دن کے اندر متعلقہ اٹھارٹی کی نوٹس میں لانا لازمی ہے۔‘‘
درخواست گزار کے انتظامیہ کے جواب سے مطمئن نہ ہونے اور ٹیکس پر مزید وضاحت کی ضرورت کے پیش نظر عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت آئندہ پیر (19 اپریل) کو مقرر