پیر کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کے 45 ویں اجلاس کے آغاز میں اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میشیل بیچلیٹ نے بھارت سے متعلق اپنے بیان میں کہا کہ جموں و کشمیر میں گذشتہ ایک برس میں 'شہریوں کے خلاف فوجی اور پولیس تشدد کے واقعات جاری ہیں، جن میں پیلٹ گنوں کا استعمال اور عسکریت پسندی سے متعلق واقعات شامل ہیں'۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت اور ڈومیسائل قوانین میں تبدیلیوں نے 'گہرا اضطراب' پیدا کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے منظر عام پر آنے والی نئی میڈیا پالیسی نے بھی تنقید کی جگہ محدود کردی ہے۔ '... سیاسی مباحثے اور عوامی شرکت کی جگہ پر سخت پابندی عائد ہے۔'
اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں ہونے والی تبدیلیوں کے دوران مین اسٹریم کے زیادہ تر سیاستدانوں کو تحویل میں لیا گیا تھا۔ سابق وزرائے اعلیٰ عمر اور فاروق عبداللہ جیسے کچھ بڑے ناموں کو اگرچہ رہا کیا گیا ہے، لیکن محبوبہ مفتی سمیت متعدد ابھی تک حراست میں ہیں۔
بیچلیٹ نے کہا 'میں کچھ سیاسی اور کمیونٹی رہنماؤں کی رہائی کا خیر مقدم کرتی ہوں، لیکن سیکڑوں افراد ہنوز نظربند ہیں جو قابل تشویش ہے۔'
پاکستان کی وزارت خارجہ کے امور نے جموں و کشمیر سے متعلق بیچلیٹ کے بیان کی سراہنا کی ہے لیکن ابھی تک بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔