ETV Bharat / state

Old Buddhist Monastery in Srinagar: کشمیر کا بودھ ماضی عدم توجہی کا شکار کیوں؟ - کشمیر چین کے لیے کیوں خاص ہے

زبرون پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہارون علاقے میں ایک ویران مقام ہے جہاں دو ہزار سال پرانی بودھ خانقاہ کی باقیات موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق کھدائی کے دوران ملے آثار سے لگتا ہے کہ اس مقام کا تعلق ماضی میں یہاں منعقد ہوئے بدھ مت کے سب سے بڑے اجتماع سے ہے۔ Old Buddhist Monastery in Harwan Srinagar

کشمیر کا بودھ ماضی عدم توجہی کا شکار کیوں؟
کشمیر کا بودھ ماضی عدم توجہی کا شکار کیوں؟
author img

By

Published : Jun 29, 2022, 2:19 PM IST

Updated : Jun 29, 2022, 3:06 PM IST

سرینگر میں زبرون پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہارون علاقے میں ایک ویران مقام ہے جہاں دو ہزار سال پرانی بودھ خانقاہ کی باقیات موجود ہیں۔ یہ اس دور کے آثار ہیں جب وسطی ایشیا کی طرح کشمیر وادی میں بدھ مت اپنے عروج پر تھا۔ اس جگہ کو آثار قدیمہ کے ماہرین نے 1919 اور 1929 ء کے درمیان کھدائی کے دوران دریافت کیا تھا۔ Two Thousand Year Old Buddhist Monastery Ruins in Harwan

کشمیر کا بودھ ماضی عدم توجہی کا شکار کیوں؟

کھدائی کے دوران برآمد شدہ آثار میں سے ایک استوپا کی تین منازل پر مشتمل بنیاد، چنائی کے ڈائپر پتھر کے انداز میں کمروں کا ایک سیٹ اور اس کے ارد گرد ٹیراکوٹا ٹائلیں ہیں۔ ٹیراکوٹا ٹائلیں فی الحال ایک عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ان ٹائلز پر لوگوں کی تصویریں ہیں جو یارقند اور کاشغر سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہیں۔ چند ٹائلز پر بنی تصاویر میں لوگ ترکی کی ٹوپیاں اور پتلون پہنے نظر آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کھدائی کے دوران ملے آثار سے لگتا ہے کہ اس مقام کا تعلق ماضی میں یہاں منعقد ہوئے بدھ مت کے سب سے بڑے اجتماع سے ہے۔ buddhist monastery in Srinagar

مورخین کا خیال ہے کہ چوتھی بودھ کونسل کشان شہنشاہ اور کنشک (127-151 قبل مسیح) نے ہارون کے اسی مقام پر بلائی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ برصغیر سے تقریباً 500 بودھ بھکشوؤں نے ان کے قابل احترام ساتھی ناگا ارجن کی قیادت میں کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ Buddhism flourished in Kashmir during the 1st century

مورخین کا کہنا ہے کہ 'اس کانفرنس نے بدھ مت کو نئی شکل دی اور تاریخی واقعہ کی کارروائی کو تانبے کی تختیوں پر کندہ کردیا گیا۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد، خیال کیا جاتا ہے کہ راہبوں نے متفقہ طور پر پلیٹوں کو اپنی اپنی منزلوں پر روانہ ہونے سے پہلے وادی میں دفن کر دیا تھا۔'

ثقافت کے ماہر اور انٹیک کے جموں و کشمیر چپٹر کے سربراہ محمد سلیم بیگ، جنہوں نے نیشنل مانیومنٹ اتھارٹی کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا ہے، کا کہنا ہے کہ "ہارون موناسٹری پر پوری طرح سے کام نہیں کیا گیا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ وہاں تانبے کی تختیوں میں وصیت نامے دفن ہوئے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بدھ مت کے چند مستند ذرائع، خاص طور پر چین کے مشہور سیاح ہیوین سانگ کے بیانات سے اخز ہوتا ہے کہ چوتھی بودھ کانفرنس کشمیر میں ہوئی تھی اور اس تقریب سے متعلق تانبے کی تختیاں بھی یہاں دفن تھیں۔ لہٰذا یہ کسی شک سے بالاتر ہے کہ یہ علاقہ بدھ مت کی تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔"

سلیم بیگ کہتے ہیں کہ ہارون کی وجہ سے ہی پڑوسی ملک چین میں "کشمیر کے تئیں بہت زیادہ احترام ہے۔" چین میں بودھ مذپب کے ساتھ لوگوں کی وابستگی ہے ۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ مذہب انہیں ہارون کے ساتھ جوڑتا ہے ، اسی لئے اس مقام کے ساتھ انکی جذباتئ وابستگی سمجھ میں آسکتی ہے۔"

سلیم بیگ جو اس وقت انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج کے جموں و کشمیر چیپٹر کے سربراہ ہیں نے افسوس کا اظہار کیا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور دیگر متعلقہ ایجنسیاں ہارون سائٹ کی صحیح کھدائی کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں جو بتایا گیا وہ یہ ہے کہ کھدائی کا پانچ فیصد بھی نہیں کیا گیا ہے، لہذا یہ بدھ مت کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے جس پر کام نہیں کیا گیا ہے۔"

سلیم بیگ کا کہنا ہے کہ ہارون کو قدیم زمانے میں 'شادراہڈوان' کے نام سے جانا جاتا تھا، جس کا مطلب ہے 'چھ سنتوں کا جنگل'۔ انکے مطابق اگر ماہرین کو چھپے ہوئے خزانے کے بارے میں اتنا ہی یقین ہے، تو متعلقہ اداروں کو کھدائی شروع کرنے سے کیا چیز روکتی ہے؟ بیگ کا کہنا ہے کہ "یہ ایک راز ہے۔"

یہ بھی پڑھیں: Sultan Jahan Manzil In Dilapidated Condition: تاریخی اہمیت کی حامل 'سلطان جہاں منزل' بدحالی کا شکار

کشتواڑ سے آئے ایک سیاح چھیرنگ لاچو نے کہا: "میں اس جگہ پر ایک عجیب کیفیت محسوس کر رہا ہوں۔ ہم صبح یہاں آئے اور دعا کی۔ یہاں پرسکون ملتا ہے۔ ہر ایک کو اس جگہ کا دورہ کرنا چاہیے اور یہاں کی روحانی توانائی سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ "صرف مسئلہ یہ ہے کہ ہماری برادری کے زیادہ تر لوگوں کو اس جگہ کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ انتظامیہ کو اس تاریخی مقام کے بارے میں آگاہی کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ لوگ یہاں آئیں، کشمیر میں سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

کشمیر کے کئی دانشوروں کا ماننا ہے کہ ہارون کے آثار قدیمہ کے تئیں حکام کی سرد مہری دانستہ ہے کیونکہ اس مقام کی موجودگی سے کشمیر کے وسط ایشیا کے ساتھ تاریخی تعلق کو مضبوط بنیاد فراہم ہوتی ہے۔

سرینگر میں زبرون پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہارون علاقے میں ایک ویران مقام ہے جہاں دو ہزار سال پرانی بودھ خانقاہ کی باقیات موجود ہیں۔ یہ اس دور کے آثار ہیں جب وسطی ایشیا کی طرح کشمیر وادی میں بدھ مت اپنے عروج پر تھا۔ اس جگہ کو آثار قدیمہ کے ماہرین نے 1919 اور 1929 ء کے درمیان کھدائی کے دوران دریافت کیا تھا۔ Two Thousand Year Old Buddhist Monastery Ruins in Harwan

کشمیر کا بودھ ماضی عدم توجہی کا شکار کیوں؟

کھدائی کے دوران برآمد شدہ آثار میں سے ایک استوپا کی تین منازل پر مشتمل بنیاد، چنائی کے ڈائپر پتھر کے انداز میں کمروں کا ایک سیٹ اور اس کے ارد گرد ٹیراکوٹا ٹائلیں ہیں۔ ٹیراکوٹا ٹائلیں فی الحال ایک عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ان ٹائلز پر لوگوں کی تصویریں ہیں جو یارقند اور کاشغر سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہیں۔ چند ٹائلز پر بنی تصاویر میں لوگ ترکی کی ٹوپیاں اور پتلون پہنے نظر آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کھدائی کے دوران ملے آثار سے لگتا ہے کہ اس مقام کا تعلق ماضی میں یہاں منعقد ہوئے بدھ مت کے سب سے بڑے اجتماع سے ہے۔ buddhist monastery in Srinagar

مورخین کا خیال ہے کہ چوتھی بودھ کونسل کشان شہنشاہ اور کنشک (127-151 قبل مسیح) نے ہارون کے اسی مقام پر بلائی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ برصغیر سے تقریباً 500 بودھ بھکشوؤں نے ان کے قابل احترام ساتھی ناگا ارجن کی قیادت میں کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ Buddhism flourished in Kashmir during the 1st century

مورخین کا کہنا ہے کہ 'اس کانفرنس نے بدھ مت کو نئی شکل دی اور تاریخی واقعہ کی کارروائی کو تانبے کی تختیوں پر کندہ کردیا گیا۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد، خیال کیا جاتا ہے کہ راہبوں نے متفقہ طور پر پلیٹوں کو اپنی اپنی منزلوں پر روانہ ہونے سے پہلے وادی میں دفن کر دیا تھا۔'

ثقافت کے ماہر اور انٹیک کے جموں و کشمیر چپٹر کے سربراہ محمد سلیم بیگ، جنہوں نے نیشنل مانیومنٹ اتھارٹی کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا ہے، کا کہنا ہے کہ "ہارون موناسٹری پر پوری طرح سے کام نہیں کیا گیا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ وہاں تانبے کی تختیوں میں وصیت نامے دفن ہوئے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بدھ مت کے چند مستند ذرائع، خاص طور پر چین کے مشہور سیاح ہیوین سانگ کے بیانات سے اخز ہوتا ہے کہ چوتھی بودھ کانفرنس کشمیر میں ہوئی تھی اور اس تقریب سے متعلق تانبے کی تختیاں بھی یہاں دفن تھیں۔ لہٰذا یہ کسی شک سے بالاتر ہے کہ یہ علاقہ بدھ مت کی تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔"

سلیم بیگ کہتے ہیں کہ ہارون کی وجہ سے ہی پڑوسی ملک چین میں "کشمیر کے تئیں بہت زیادہ احترام ہے۔" چین میں بودھ مذپب کے ساتھ لوگوں کی وابستگی ہے ۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ مذہب انہیں ہارون کے ساتھ جوڑتا ہے ، اسی لئے اس مقام کے ساتھ انکی جذباتئ وابستگی سمجھ میں آسکتی ہے۔"

سلیم بیگ جو اس وقت انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج کے جموں و کشمیر چیپٹر کے سربراہ ہیں نے افسوس کا اظہار کیا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور دیگر متعلقہ ایجنسیاں ہارون سائٹ کی صحیح کھدائی کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں جو بتایا گیا وہ یہ ہے کہ کھدائی کا پانچ فیصد بھی نہیں کیا گیا ہے، لہذا یہ بدھ مت کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے جس پر کام نہیں کیا گیا ہے۔"

سلیم بیگ کا کہنا ہے کہ ہارون کو قدیم زمانے میں 'شادراہڈوان' کے نام سے جانا جاتا تھا، جس کا مطلب ہے 'چھ سنتوں کا جنگل'۔ انکے مطابق اگر ماہرین کو چھپے ہوئے خزانے کے بارے میں اتنا ہی یقین ہے، تو متعلقہ اداروں کو کھدائی شروع کرنے سے کیا چیز روکتی ہے؟ بیگ کا کہنا ہے کہ "یہ ایک راز ہے۔"

یہ بھی پڑھیں: Sultan Jahan Manzil In Dilapidated Condition: تاریخی اہمیت کی حامل 'سلطان جہاں منزل' بدحالی کا شکار

کشتواڑ سے آئے ایک سیاح چھیرنگ لاچو نے کہا: "میں اس جگہ پر ایک عجیب کیفیت محسوس کر رہا ہوں۔ ہم صبح یہاں آئے اور دعا کی۔ یہاں پرسکون ملتا ہے۔ ہر ایک کو اس جگہ کا دورہ کرنا چاہیے اور یہاں کی روحانی توانائی سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ "صرف مسئلہ یہ ہے کہ ہماری برادری کے زیادہ تر لوگوں کو اس جگہ کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ انتظامیہ کو اس تاریخی مقام کے بارے میں آگاہی کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ لوگ یہاں آئیں، کشمیر میں سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

کشمیر کے کئی دانشوروں کا ماننا ہے کہ ہارون کے آثار قدیمہ کے تئیں حکام کی سرد مہری دانستہ ہے کیونکہ اس مقام کی موجودگی سے کشمیر کے وسط ایشیا کے ساتھ تاریخی تعلق کو مضبوط بنیاد فراہم ہوتی ہے۔

Last Updated : Jun 29, 2022, 3:06 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.