عمر عبداللہ کا پچاسواں جنم دن اس وقت آیا ہے جب جہاں ایک طرف وادی میں سابق وزیر سید محمد الطاف بخاری کی قیادت میں 'اپنی پارٹی' کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت منصہ شہود پر آئی ہے وہیں دوسری طرف ملک کی چھ اپوزیشن جماعتوں نے موصوف کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنی والدہ کی خواہش کے برعکس لیکن اپنے خاندانی روایات کے عین مطابق عمر عبداللہ نے سال1998 میں اپنی سیاسی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا اور این ڈی اے حکومت کے دوران 23 جولائی 2001 سے 23 دسمبر 2002 تک مرکزی وزیر مملکت برائے امور خارجہ کے عہدے پر براجمان رہے۔
سیاسی کیرئر کے روز اول سے ہی عمر عبداللہ کا اپنے بیانات اور تقاریر کے باعث پارٹی میں بھی اور باقی سیاسی حلقوں میں بھی طوطی بولنے لگا اور لوگ انہیں اپنے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے نسبت سنجیدگی سے لینے لگے۔
سیاسی میدان میں کئی نشیب وفراز دیکھنے کے بعد عمر عبداللہ سال 2009 میں جموں کشمیر کے عمر کے لحاظ سے سب سے چھوٹے وزیر اعلیٰ کے طور پر راج گدی پر جلوہ افروز ہوئے اس دوران انہیں جموں کشمیر بالخصوص وادی کشمیر میں خاصی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔
عمر عبداللہ نے سیاسی زندگی کے آغاز سے قبل سال 1994 میں ایک فوجی افسر کی صاحبزادی پائل عبداللہ سے نکاح کرکے اپنی ازدواجی زندگی بھی شروع کی تھی لیکن وہ شادی بعد ازاں طلاق پر منتج ہوئی۔
تختہ اقتدار سے محرومی کے بعد عمر عبداللہ اپوزیشن میں رہ کر زمینی سطح پر بھی اور سوشل میڈیا پر بھی کافی سر گرم رہے، حزب اقتدار جس میں بی جے پی بھی ایک شرکت دار تھا، کے خلاف تیکھے وار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور سوشل میڈیا پر بھی کسی بھی مسئلے پر اظہار خیال کرنے کے کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا جس بنا پر وہ ٹویٹر ٹائیگر کے نام سے بھی مشہور ہوگئے۔
دریں اثنا سال گزشتہ کے ماہ اگست کی پانچ تاریخ کو مرکزی حکومت نے آئینی دفعات 370 و 35 اے کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے ساتھ ہی عمر عبداللہ کی سیاسی سرگرمیاں بھی مفلوج ہوکر جیل کی سرگرمیوں میں تبدیل ہوگئیں۔
عمر عبداللہ گزشتہ سات ماہ سے جیل میں ہیں اور ان پر بائیکاٹ کے باوجود لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر راغب کرنے اور سوشل میڈیا پر لوگوں کو مشتعل کرنے کے پاداش میں ماہ فروری کے پہلے ہفتے میں پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) عائد کیا گیا۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران عمر کی دوران حراست لی گئی لمبی اور سفید داڑھی والی تصویریں وائرل ہوگئیں جو سوشل میڈیا پر عوامی حلقوں میں بالعموم اور سیاسی حلقوں میں بالخصوص گرم مباحثے کا باعث بن گئیں۔
نیشنل کانفرنس کے لیڈروں، جو زیر حراست نہیں ہیں، کا کہنا ہے کہ اعلیٰ قیادت کی رہائی کے بعد پارٹی سیاسی سرگرمیاں بحال کرکے عوام تک پہنچے گی اور ان کو در پیش مشکلات کا ازالہ کرنے میں سر توڑ کوشش کرے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ وادی میں نئی سیاسی جماعت معرض وجود میں آنے کے باوصف ہمارے لیڈران وکارکنان پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے کیونکہ ہماری پارٹی برابر مستحکم اور معروف ہے بلکہ قائدین کی رہائی کے بعد اس کی شہرت میں مزید چار چاند لگ جائیں گے۔
موصوف لیڈروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہمارے بڑے قائدین لوگوں سے کٹے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی باقی لیڈران وکارکنان ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
فی الوقت عمر عبداللہ اپنی والدہ اور ہمشیرہ کے ساتھ ہفتے میں دو بار ملاقی ہوتے ہیں اور ان کی اپنے فرزندان ظہیر اور ضمیر کے ساتھ زائد از دو ماہ بعد ملاقات ممکن ہوئی تھی۔