یہ مرکزی حکومت کے پانچ اگست کے فیصلوں، جن کے تحت جموں وکشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات منسوخ کئے گئے اور اسے دو حصوں میں منقسم کرکے دو یونین ٹریٹریز میں تبدیل کیا گیا، کے بعد کسی بھی غیر سرکاری و غیر ملکی وفد کا پہلا دورہ کشمیر ہے۔
یورپی پارلیمان کا وفد نے سونہ وار علاقہ میں واقع بادامی باغ فوجی چھاونی میں سینئر فوجی عہدیداروں بشمول فوج کی 15 ویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹیننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلون سے ملاقات کی۔
اس موقع پر فوج نے کشمیر میں امن وامان کی بحالی کے لئے اٹھائے جارہے اقدامات پر پاور پائونٹ پریذنٹیشن دکھائی۔
ذرائع نے بتایا کہ وفد یہاں ایک ہوٹل میں اپنے قیام کے دوران مختلف وفود سے ملاقات کرے گا۔
انہوں نے کہا: 'وفد نے منگل کے روز وفود سے ملاقات کرنے کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے پنچایتی اراکین اور کچھ سیاسی جماعتوں کے لیڈران بالخصوص بی جے پی سمیت قریب پندرہ وفود سے ملاقات کی'۔
بی جے پی کشمیر کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے کہا بی جے پی کے آٹھ اراکین پر مشتمل ایک وفد نے یورپی اراکین پارلیمان کے ساتھ ملاقات کی۔
انہوں نے کہا: 'ہم نے یورپی پارلیمان کے اراکین کو بتایا کہ کشمیری امن اور ترقی چاہتے ہیں۔ ہم نے وفد کو بتایا کہ دفعہ 370 کی وجہ سے یہاں شفافیت اور احتساب کا فقدان تھا۔ اس کی وجہ سے یہاں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی بڑھتی تھی۔ ہم نے کہا کہ عام کشمیر بچوں کے لئے تعلیم اور روزگار چاہتا ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا: 'ہم نے وفد کو بتایا کہ باہری دنیا کو کشمیر کی صحیح تصویر نہیں دکھائی جاتی۔ حقیقی تصویر یہ ہے کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے'۔
بی جے پی ترجمان نے مزید کہا کہ جب بی جے پی وفد نے یورپی اراکین پارلیمان سے ملاقات کی اس وقت 12 وفود انتظار میں تھے۔
ایک رپورٹ میں وفد کے ایک رکن بی این ڈن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ وادی میں عام کشمیریوں سے ملاقات کرنے اور وہاں کے حالات جاننے کے لئے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں دفعہ 370 کے بارے میں بتایا لیکن وہ خود کشمیر جا کر زمینی حقائق معلوم کرنا چاہتے تھے۔
ملک کی اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریس نے یورپی اراکین پارلیمان کے دورہ کشمیر پر سوال اٹھائے ہیں۔
کانگریس کا کہنا ہے کہ جب ملک کے سیاستدانوں کو جموں وکشمیر میں لوگوں سے نہیں ملنے دیا جارہا تو یورپی پارلیمان کے اراکین کو اس کی اجازت کیونکر دی گئی۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش کے مطابق یہ ملک کی پارلیمان اور جمہوریت کی توہین ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر آنے والے یورپی پارلیمان کے تین اراکین کو چھوڑ کر باقی سب کا تعلق یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے۔ وہ مبینہ طور پر اسلام مخالف بیان بازی کے لئے بھی مشہور ہیں۔
اس دوران محبوبہ مفتی کے ٹویٹر ہینڈل پر ان کی بیٹی التجا مفتی نے ٹویٹ کرتے ہوئے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ امریکی اراکین پارلیمان کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی ہے۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ غیر ملکی وفد کو عام لوگوں، مقامی میڈیا، ڈاکٹروں اور سول سوسائٹی کے ارکان سے بات چیت کرنے کا موقع ملے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر اور باقی دنیا کے درمیان حائل لوہے کی چادر ہٹا دی جائے۔
بتادیں کہ 5 اگست، جس دن مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات منسوخ کئے اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں منقسم کیا، سے وادی کشمیر میں ہڑتال ہے۔ وادی میں ہر طرح کی انٹرنیٹ خدمات معطل ہیں، تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا عمل معطل ہے، اس کے علاوہ ریل خدمات بھی بند ہیں۔ تاہم لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر عائد پابندیاں ہٹائی جاچکی ہیں۔